165

یورپ جانے کے خواہشمندوں کے نام

کہتے ہیں کہ شیخ سعدی ؒ کے کسی دوست نے ان سے کسی دوسرے ملک روزگار کے سلسلے میں جانے کی بات کی تو انہوں نے اسے سمجھایا کہ یہیں اپنے ملک میں ہی رہ کر کمائی کرو اور جو ملتا ہے اس پر صبر اور شکر کرو لیکن وہ نہ مانے اور ایک دن رخصت ہوتے ہوئے ان سے آخری ملاقات کے لیے آئے اور کہاکہ فلاں ملک جا رہا ہوں کوئی کام ہو تو بتائیے۔ شیخ سعدیؒ نے جواب دیا کہ اگر تم جا ہی رہے تو وہاں کے خدا کو میرا سلام کہہ دینا۔ وہ دوست حیران ہوئے اور پوچھا حضرت یہ کیسی بات کہہ رہے ہیں؟ حضرت نے جواب دیا کہ شاید یہاں کا خدا بخیل اور وہاں کا سخی ہو گا اس لیے کہہ رہا ہوں۔ دوست کو مزید حیرت ہوئی اور کہا،حضرت!کم از کم آپ کے ساتھ تو ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ کیا یہاں اور وہاں کے خدا جدا ہیں؟ تو شیخ سعدی ؒ نے فرمایا، میاں!جب یہاں اور وہاں کا خدا ایک ہی ہے تو پھر کیونکہ اسی خدا سے وہاں جا کر مانگنا چاہتے ہیں یہیں رہ کر اس سے مانگ لو۔
عربی کا یہ مقولہ بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے”السفر وسیلۃ الظفر“ یعنی سفر کامیابی کا ذریعہ ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ انسان سفر کے لیے ہر طرح کے خطرات مول لینے کی کوشش کرنے لگے اور اپنی جان داؤ پر لگا دے۔ اس بات کی بھی پرواہ نہ کرے کہ میں جس سفر پر نکل رہا ہوں اس میں چاروں طرف موت ہی موت منڈلا رہی ہے اور اس سفر میں منزل تک پہنچنے کے امکانات نہایت محدود ہیں۔ سفر بھی فقط اس لیے کہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے کمائی ذرا کم ہوتی ہے دوسرے ملک میں جا کر دولت کی ریل پیل ہو جائے گی اس لیے وہاں ہر حال میں پہنچنے کی کوشش کرنا کسی طرح بھی حوصلہ افزائی کے قابل نہیں ہے۔ چند روز قبل میرے ایک شاگرد نے کہا، سر! میرا ایک کزن ڈنکی لگا کر فرانس جا رہا ہے۔ پنجاب میں ڈنکی غیر قانونی طور پر یورپ وغیرہ میں داخل ہونے کو کہتے ہیں۔ تو میں نے کہا بھائی یہ نہایت خطرناک سفر ہے اسے مت جانے دو، میرے شاگرد نے خود ہی کہا نہیں سر اتنا بھی خطرناک نہیں ہے۔ اس کے دوسرے ہی روز یونان کے قریب غیرقانونی طریقے سے یورپ میں داخلے کی کوشش کرنے والوں کی کشتی الٹنے کا نہایت دلخراش واقعہ پیش آ گیا جس میں سینکڑوں افراد جن میں کئی درجن پاکستانی بھی شامل تھے جان کی بازی ہار گئے۔ یہ خبر میں نے اپنے اسی شاگرد کو بھیجی کہ یہ سفر ہر طرح سے خطرات سے بھرپور ہے اسے اتنا آسان مت سمجھو۔
پاکستان سے ہر سال تقریباً 20سے 25ہزار افراد غیر قانونی طریقے سے یورپ یا دیگر ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برس میں یہ تعداد چالیس ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ان افراد میں سے بہت سے سرحدی محافظوں کے ہاتھوں، سخت موسمی حالات یاکشتیوں اورجہازوں کے تباہ ہونے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو گرفتار ہو کر ڈی پورٹ کر دیے جاتے ہیں اور عمر بھر کی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلکہ مقروض بھی ہو جاتے ہیں۔ خطے میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے لوگ غیر قانونی طریقے سے یورپ اور آسٹریلیا جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یورپ جانے والوں کو پاکستان کے مختلف علاقوں سے صوبہ بلوچستان کے علاقے تفتان وہاں سے ایران اور پھر ترکی کے راستے یونان اور اٹلی پہنچایا جاتا ہے، کچھ لوگوں کو افریقی ممالک جیسے لیبیا وغیرہ لے جایا جاتا ہے وہاں سے کشتیوں کے ذریعے یونان یا اٹلی پہنچایا جاتا ہے۔ آسٹریلیا جانے کے خواہشمندوں
کو قانونی طریقے سے ملائیشیا یا تھائی لینڈ پہنچایا جاتا ہے وہاں سے غیر قانونی طریقے سے سمندری راستے آسٹریلیا پہنچایا جاتا ہے۔
یہ نوجوان یورپ میں حسین زندگی کے خواب دیکھتے ہوئے گھر والوں سے ضد کرتے ہیں کہ انہیں یورپ بھیجا جائے۔ جب قانونی طریقے سے یورپ جانے کا انتظام نہیں کر پاتے تو غیر قانونی طریقے کا انتخاب کرتے ہیں۔ بعض والدین اپنی مرضی سے بھی بچوں کو غیر قانونی طریقے سے یورپ بھیجتے ہیں۔ انسانی سمگلرز جو ایجنٹس بن کر ان کے یورپ جانے کا انتظام کرتے ہیں وہ ان نوجوانوں سے پیسے وصول کرنے کے بعد ان کے گھر سے نکلتے ہیں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑیوں میں ٹھونسا جاتا ہے، انہیں بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے، انتہائی گرمی میں یا برفانی علاقوں میں پیدل چلایا جاتا ہے کئی افراد تو ان ایجنٹوں کے اس غیر انسانی سلوک کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک نوجوان جو دی پورٹ کر دیا گیا تھا اس نے بتایا کہ ہمیں کراچی سے ایران کے بارڈر تک پہنچانے کے لیے جو گاڑی استعمال کی گئی اس کی ڈگی میں چھ افراد کو ٹھونسا گیا تھا جن میں سے ایک دم گھنٹے سے جاں بحق ہو گیا۔ یہ لوگ ایجنٹوں کے خلاف شکایت بھی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ خود بھی تو غیر قانونی کام کر رہے ہیں ایجنٹ اس بات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے ہیں۔
ایک صحافی جو غیر قانونی تارکین وطن کے روپ میں کوئٹہ سے ایران کے بارڈر تک گیا اس نے اپنی آپ بیتی میں حیران کن انکشافات کیے ہیں کہ کس طرح ان لوگوں کے ساتھ غیر انسانی رویہ رکھا جاتا ہے، انتہائی پرانی اور کھٹارا گاڑیوں میں لوگوں کو ٹھونس کر صحراؤں اور خراب راستوں پر بے رحمی سے بھگایا جاتا ہے کہ لوگوں کے کلیجے تک منہ کو آنے لگتے ہیں۔ بارہ بارہ گھنٹے اس طرح سفر کرایا جاتا ہے۔ کبھی راستے ہیں مزید پیسے بھی مانگے جاتے ہیں اور نہ دینے پر پولیس کو بلانے کی دھمکی دی جاتی ہے اور ایک ایجنٹ نے تو پولیس کو بلانے کے لیے دوسرے سے کہہ بھی دیا تھا وہ صحافی لکھتے ہیں کہ ایجنٹ پولیس سے اس لیے نہیں ڈرتے کہ شاید اس میں پولیس کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ راستے میں دوگنی قیمت پر پانی اور کھانے کی اشیاء فراہم کی جاتی ہیں۔
نوجوانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے ملک میں اللہ کے دیے ہوئے تھوڑے پر صبر کریں اور محض عیش و عشرت کی زندگی کے لیے اپنی زندگیوں کو داؤ پر مت لگائیں اور اپنے گھر والوں کو عمر بھر کے صدمے سے دوچار نہ کریں۔ جتنے لاکھوں روپے ایجنٹوں کو دیتے ہیں ان میں یہیں کوئی کاروبار کر لیں اور اللہ کی طرف رجوع رکھیں اور اس سے برکت کی دعا مانگتے رہیں، یقینا آپ کو یہیں راحت کی زندگی نصیب ہو جائے گی۔ ہاں اگر کسی کو قانونی طریقے سے کسی دوسرے ملک جانے کا موقع ملتا ہے تو اچھی بات ہے ضرور جائیں، بلکہ اس میں بھی اپنے ملک میں رہ کر اسی کی خدمت کو ترجیح دیں لیکن جانے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے مگر محض لالچ میں غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کے اتنے پرپیچ اور کٹھن سفر کا انتخاب ہر گز مت کریں۔ یہ اتنا بھی آسان نہیں جتنا کہ نظر آتا ہے اس میں بہت سی تکالیف اور دکھ درد شامل ہیں اور موت کے سائے ہر وقت منڈلاتے رہتے ہیں۔ کوشش کریں اپنے ملک میں رہ کر ہی روزگار کا انتظام کریں۔
اس کے علاوہ حکومت سے بھی درخواست ہے کہ نوجوانوں کے حال پر رحم کریں اورانہیں روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرے۔ ان کے لیے لنگر خانے اور احساس پروگرام کھولنے کی بجائے ان کے لیے فیکٹریاں اور کارخانے لگا ئیں تاکہ ملک میں روزگار کے مواقع بڑھیں اور
نوجوان دیگر ممالک میں جا کر کام کرنے اور اپنی خدمات فراہم کرنے کی بجائے اپنے ملک کی ہی خدمت کریں اور غیر قانونی طریقے سے دیگر ممالک جانے کا رجحان بھی کم ہو اور آئے روز پیش آنے والے دلخراش واقعات کی تعداد میں بھی کمی واقع ہو۔
ضیاء الرحمن ضیاءؔ

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں