کہتے ہیں کہ بادشاہ اکبر کے دربار میں ایک نہائت ہی سمجھدار اور ذہین وزیر تھا، جس کا نام تھا بیر بل، بیر بل اکثر بادشاہ کو اپنی عقل اور ذہانت سے ایسے ایسے سبق سکھاتا تھا کہ بادشاہ کی عقل دھنگ رہ جاتی تھی۔ ایک دن بادشاہ نے بیر بل کو بلایا اور کہا کہ ہم اپنے ملک کی ترقی کے لئے اتنا کچھ کر رہے ہیں لیکن پھر بھی کیا وجہ ہے کہ عوامی مسائل حل نہیں ہو رہے اور ملک ویسے کا ویسا ہی ہے۔ بیر بل نے عرض کیا کہ حضور میں تھوڑی چھان بین کر لوں اور پھر بہت جلد آپ کو اس بات کا جواب دوں گا۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک دن بیر بل نے بادشاہ کو اپنے گھر کھانے کی دعوت پہ بلایا۔ بادشاہ نے دعوت قبول کر لی اور اپنے وزیروں، مشیروں اور درباریوں سمیت بیر بل کے گھر پہنچ گیا۔ بیر بل نے بادشاہ کانہایت ہی شاندار استقبال کیا، دعوت میں پیش کیے جانے والے کھانوں کاخیالی نقشہ پیش کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ابھی کھانے میں تھوڑا وقت ہے۔ بادشاہ اپنے درباریوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہو گیا، جب تھوڑا وقت گزرا تو بادشاہ نے بیر بل سے کھانے کے متعلق پوچھا تو بیر بل نے کہا کہ ابھی دیکھ کے بتاتا ہوں، بیر بل واپس آیا اور بادشاہ سے کہا کہ حضور کھانے میں ابھی تھوڑا وقت ہے۔ بادشاہ پھر وقت گزارنے کے لئے لوگوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہو گیا، جب تھوڑا اور وقت گزرا تو بادشاہ نے پھر کھانے کا پوچھا، بیر بل نے پھر وہی جواب دیا کہ حضور دیکھ کے بتاتا ہوں، لیکن اس بار جب بیر بل واپس آیا اور بادشاہ کو بتایا کہ حضور کھانے میں ابھی وقت ہے تو بادشاہ کو غصہ آ گیا، بادشاہ نے کہا کہ مجھے اس جگہ لے چلوجہاں کھانا پکایا جا رہا ہے تا کہ میں خود دیکھوں کہ کیا ماجرہ ہے، اتنا وقت گزر گیا اور کھانا کیوں تیار نہیں ہو رہا۔ جب بادشاہ کھانے پکانے والی جگہ پر پہنچا تو اس نے کیا دیکھا کہ آگ تو زمین پہ جلی ہوئی ہے لیکن وہ دیگچہ جس میں کھانا پکنا ہے وہ بانس کے اونچے اونچے ڈنڈوں کے ساتھ اوپر ہوا میں لٹکا ہوا ہے، یہ سب دیکھ کر بادشاہ سخت غصے میں آگیا، بادشاہ نے بیر بل سے کہا کہ یہ کیا بے وقوفی ہے اس طرح تو کھانا قیامت تک بھی نہیں پکے گا۔ بیر بل نے بادشاہ سے کہا کہ حضور آگ جلی ہوئی ہے اور دیگچہ بھی اوپرچڑھا ہوا ہے، پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کھانا کبھی تیار نہیں ہو گا۔ بادشاہ نے کہا کہ تمھیں نظر نہیں آتا کہ آگ اور کھانے میں کتنا فاصلہ ہے، جہاں تم نے دیگچہ لٹکایا ہوا ہے وہاں تک تو آگ پہنچ نہیں پا رہی تو کھانا کیسے تیار ہو گا۔ یہ سن کر بیر بل نے کہا اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر ہمارا ملک بھی کبھی ترقی نہیں کر سکے گا۔ بادشاہ بیر بل کی بات سن کر حیران ہوا اور کہنے لگا کہ کھانے اور ملک کی ترقی کا بھلا کیا تعلق؟ بیر بل نے کہا کہ ملک کی ترقی کے لئے آپ جو پالیسیاں بنا رہے ہیں، ان کا اور ملکی مسائل کا اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ اس آگ اور دیگچے میں ہے۔ لوگوں کے مسائل کچھ اور ہیں اور آپ کی ترجیحات کچھ اور ، عوام کچھ اور چاہتے ہیں جبکہ آپ کچھ اور سوچتے ہیں۔ جب تک آپ کی ترجیحات اور عوامی مسائل کے درمیان یہ فاصلہ برقرار رہے گا یہ ملک بھی کبھی ترقی نہیں کر سکتا، بالکل ایسے ہی جیسے یہ کھانا کبھی نہیں پک سکتا۔ یہ سن کر بادشاہ کچھ سوچنے لگا، تھوڑا مسکرایا اور واپس چل دیا، اس کو اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا۔ آپ چاہتے ہیں کہ یہ کھانا تیار ہو جائے تو دیگچے کو آگ کے پاس لانا ہو گا، اور اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ملکی مسائل حل ہوں اور ملک ترقی کرے تو آپ کو اپنی ترجیحات کا دائرہ عوامی مسائل کے گرد لانا ہو گا۔ جس طرح کھانا پکانے کے لیے آگ اور دیگچے کا ملناضروری ہے تو اسی طرح ملک کی ترقی کے لئے بھی عوامی امنگوں، ضرورتوں اور مسائل کے ساتھ حکومتی پالیسیوں ، منصوبوں اور ترجیحات کا تال میل بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ہے، عوامی مسائل کسی اور طرف اشارہ کر رہے ہیں اور حکومتی ترجیحات کسی اور طرف جا رہی ہوتی ہیں۔ اربوں، کھربوں روپے کے منصوبے بناکر، تمام وسائل خرچ کر کے پھر بھی ملک وہیں کا وہیں۔ ہمارے مسائل اس لئے حل نہیں ہوتے کیونکہ ہماری ترجیحات ہمارے مسائل کا تعاقب نہیں کر رہیں، بلکہ ان کی دوڑ الگ سے لگی ہوئی ہے۔ کاش ہماری کابینہ میں بھی کوئی ایسا بیر بل پیدا ہو جائے جو حکمرانوں کو ملکی ترقی کا یہ آسان سا نسخہ بتائے کہ ملک کی ترقی عوامی مسائل کے مطابق ترجیحات طے کرنے میں ہے۔ عوام بے روزگاری، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، ملاوٹ، کرپشن، بیماری، نا خواندگی، بد امنی، جرائم اور مایوسی جیسی مصیبتوں میں مبتلا ہیں جبکہ ہماری ترجیحات کی ہانڈی عوامی مسائل کی جلتی آگ سے کوسوں دور لٹکی ہوئی ہے۔ نہ یہ ہانڈی پکے گی اور نہ ہی کبھی ہم خوشحال ہوپائیں گے۔{jcomments on}
157