308

ہم نے خیرات میں یہ پھول نہیں پائے ہیں/ مختار اجمل بھٹی

آج ہم جس آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ پاک دھرتی اور یہ آزاد فضا ہمیں کیسے ملی ۔یہ پاک وطن ہمارے اسلاف کی لازوال قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جس کا حرف حرف لہو میں ڈوبا ہواہے۔ آزادی کی راہ میں لاکھوں جانیں قربان ہوئیں۔نامعلوم!کتنی ماؤں کے کلیجے چھلنی ہوئے۔ بوڑھے باپ کا سہارا گھبروجوان تہہ تیغ ہو گئے ۔عفت مآب بیٹیوں کی چادریں تارتار کر دی گئیں۔بہنوں کی عصمتیں نیلام ہوئیں۔بچے یتیم اور سہاگنیں بیوہ ہو گئیں۔مال و متاع،جاہ و حشمت ،دھن دولت حتی کہ جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے گئے تب جا کر کہیں اس قوم کو آزادی کا سو رج دیکھنا نصیب ہوا۔
ہم نے خیرات میں یہ پھول نہیں پائے ہیں
خونِ دل صرف کیا ہے تو بہار آئی ہے
لَش پَش کرتی ،نئے نئے ماڈل کی گاڑیوں میں گھومتے ،کبرونخوت کے مجسمو!ہاتھوں میں گٹار اٹھائے،بالوں میں پونیاں سجائے،ہیپی اور کاؤ بوائے کا روپ دھارنے والے مغربی تہذیب کے دلدادہ نو جوانو! تمہیںآزادی کی قدروقیمت کیا معلوم۔۔؟تم توواشنگٹن،لندن اور پیرس کے نظاروں میں کھوئے ہوئے ہو۔۔!کیا تم نے کبھی بغداد کے گلی کوچوں،فلسطین،لبنان کے ریگزاروں،بوسنیا، چیچنیا کی وادیوں، افغانستان اور وزیرستان کے پہاڑوں میں گونجنے والی سسکیوں اور آہوں کو بھی سنا ہے ۔کٹے پھٹے جسموں،تڑپتے بدنوں اور جلتی لاشوں سے اٹھنے والا دھواں مغربی تہذیب کے نا خداؤں کی کارستانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کیا تم نے کبھی ابو غریب اورگوانتاناموبے کے عقوبت خانوں سے ابھرتی ہوئی دلدوز چیخیں اور ڈاکٹر عافیہ جیسی معصوم بہنوں کی فریادیں بھی سنی ہیں جو عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے شکنجے میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہیں۔لندن ،پیرس اور واشنگٹن کو قبلہ ماننے والو! کیا تم نے کبھی اپنی تاریخ کا بھی مطالعہ کیا ہے۔رسول عربی محمد مصطفےﷺ ،صحابہ کرامؓ،اولیاء عظام کی تو بات ہی کیاہے؟ کیا تم نے کبھی سر سید احمد خان ،مولانا ظفر علی ،لیاقت علی خان،مولانا شوکت علی ،مولانا محمد علی جوہر،علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے حالاتِ زندگی بھی پڑھے ہیں۔تمہیں تو ڈش ،کیبل،انٹرنیٹ،ہالی وڈاور بالی وڈکے رنگین نظاروں سے فرصت ملے تو تب۔۔ افسوس صد افسوس
میراث میں آتی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن
میری ملت کے بھٹکے ہوئے نو جوانو! اب بھی وقت ہے لوٹ آؤ اپنی اصل کی جانب۔لندن اور واشنگٹن کی بجائے اپنا رخ مکہ مدینہ کہ طرف کر لو۔ غیروں کے سامنے جھکنے اور ہاتھ پھیلانے کی بجائے پروردگارِعالم کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اسی سے نصرت طلب کرو۔اپنے گفتاروکردار اورعادات و اطوار کو رسولِ عربیﷺ کے اسوۂ حسنہ کے سانچے میں ڈھال لو تومشرق و مغرب کی فرمانروائی تمھارا ہی مقدر ہو گی۔
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی ، ذہنِ ہندی، نطقِ اعرابی{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں