نومبر اور دسمبر کے مہینے دیسی مہینے پوہ اور مگھر کو ساتھ لئے آتے ہیں جو انتہا کے سرد ہوتے ہیں لیکن ان انگریزی مہینوں میں نومبر کا مہینہ انسان کی سرگرمیوں کے حوالے سے سردیوں کے ساتھ ساتھ بلدیاتی الیکشن کی سرگرمی بھی ساتھ لایا اور بالخصوص خطہ پوٹھوار سمیت ضلع راولپنڈی بھر میں جگہ جگہ سیاسی جلسے اور کارنر میٹنگ منعقد کی گئی میں قومی اسمبلی کے حلقہ NA-52اور صوبائی حلقہ PP-5کا باسی ہوں جو با لترتیب چوہدری نثار علی خان اور انجنےئر قمر الاسلام راجہ کے حلقے ہیں جہاں کے مکینوں میں پاکستان مسلم لیگ ن کی اکثریت خاصی تعداد میں ہے ان حلقوں میں جو امیدوار ن مسلم لیگ کے مقابلہ میں سامنے آئے وہ تحریک انصاف کے امیدوار تھے جن کے درمیان متوقع طور پر مقابلہ کانٹے دار تھا اور ہوا بھی ۔یونین کونسل بشندوٹ میں ن لیگ کے امیدوار محمد زبیر کیانی اور تحریک انصاف کے امیدوار محمد ہمایوں کیانی کے درمیان جہاں جلسے اور ریلیاں پوری آب وتاب کے ساتھ دیکھنے اور سننے کو ملی وہاں میرے اپنے گاؤں ڈہوک کالیاں میں ووٹر ان دونوں کی حمائیت میں 60%اور40%کے تناسب سے 5دسمبر سے پہلے بٹے ہوئے دکھائی دیے چند گھرانے ایسے بھی تھے جن میں اگر شوہر زبیر کیانی کے حق میں تھا تو بیوی ہمایوں کیانی کے حق میں اپنی کمپین اپنے ہی گھر میں اور اپنے پڑوسیوں کے درمیان اپنی اپنی پارٹی کی کمپین کے لئے سرگرم رہے ایسے ہی ایک شوہر ووٹر کی جب 3دسمبر کو میری ملاقات ہوئی تو کہنے لگے دیکھو بھئی ہم خسارے میں ہر گز نہیں رہیں گے دونوں میں سے کوئی تو جیتے گا لہٰذا بہر طور ہمارا جیت میں حصہ تو رہے گا ۔میں نے سنا تو اسے صرف اتنا کہا آپ ٹھیک فرماتے ہیں بھائی اور بہت ٹھیک فرماتے ہیں آپ کو کم از کم ہارنے کا دکھ نہیں ہو گا کہیں بھابی نے یہ شعر پڑ ھ کر آپ کو تو نہیں سنایا ’’اس شرط پر کھیلوں گی پیا پیار کی بازی میں ،ہاروں تو پیا تیری جیتوں تو پیا میرا ‘‘وہ سن کر مسکرا تو دیا لیکن میں زبیر کیانی کی جیت میں اپنے اس دوست کو گھر مبارک باد دینے نہیں جا سکا ۔الیکشن مہم کے دوران میں جب ان دونوں حضرات کی تقاریر جلسوں میں سنتا تو بے اختیار اپنے ہی یہ اشعار ذہن میں اتر آتے ۔
اب اس قدر بھی نہ دعویٰ تو بات بات میں رکھو
شکست و ریخت بھی الیکشن کے ممکنات میں رکھو
تیرے گمان سے بھی اونچی صدا کو رکھتا ہوں
یہ کاٹ لہجے کی اپنی ذرا اوقات میں رکھو
بہر حال الیکشن ہوا اور خوب جوش و خروش سے ہوا میری امید کے مطابق زبیر کیانی بحیثیت چےئر مین یونین کونسل بشندوٹ منتخب ہو گئے جس پر ان کے پرستاروں اور حامیوں نے جی بھر کے خوشی منائی اور زبیر کیانی نے بھی محبت کا جواب محبت سے دیا آج
جب کہ میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو الیکشن کا رزلٹ آئے تیسرا دن ہے زبیر کیانی میرے خاص ہمدردوں میں سے ہیں وہ اپنے اندر فہم و فراست اور بلند ہمت اور مثبت سوچ رکھتے ہیں یونین کونسل بشندوٹ باقی کونسلوں کی طرح بہت سے مسائل سے دوچار ہے جن کے ازالے کیلئے زبیر کیانی کو برادری ازم اور اقرباء پروری کی سیاست کو بالائے طاق رکھ کر ترجیح بنیادوں پر انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر ان مسائل کے حل کیلئے اپنے اثرو رسوخ اور ضمیر کے مطابق فیصلے کرنے ہونگے دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کیلئے کیسے نپٹیں گے تب تک غالب کا یہ شعر مجھے حوصلہ دئے ہوئے ہے ۔
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
کوئی بھی میدان ہو سیاسی ہو یا غیر سیاسی جہاں دو امیدوار مد مقابل ہوں تو جیت اور ہار کسی ایک کا مقدر ہو تا ہے ہمایوں کیانی نے بھی مقابلہ کیا اور خوب کیا لہٰذا انہیں دل برداشتہ نہیں ہو نا چاہیے ان کے حوصلے کو تقویت پہنچانے کیلئے عرض ہے ۔
گرتے ہیں شہ سوار یوں ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے ۔{jcomments on}
96