284

گھر کا اثاثہ/عبدالجبار چوہدری

پہلے پہل گھر میں اثاثہ کیا ہوتا تھا اگر کسی سے سوال کیا جاتا کہ آپ کے پاس کتنی دولت ہے تو مویشی،پالتو جانور، مرغیاں اورمکان کے کمرے کئی کنال زمین اور بچوں کو شمار کر کے بتایا جاتا یہ ساری د ولت اس کی امارت یا غربت کا پتہ دیتی تھی وقت گزرنے کے

ساتھ ساتھ یہ اثاثے تو کم ہوتے جارہے ہیں اور نہ ہی ان کا ذکر کرنا کوئی مناسب خیال کرتا ہے گاڑی کا پورچ میں کھڑا ہونا بلند و بالا عمارت جسے کوٹھی کہا جاتا ہے اور بینک میں لاکھوں کروڑوں کا ہونا امارت کہلانے لگا خاندان میں اگر کوئی غیر ملکی نیشنلٹی ہولڈر ہو جائے اور پاؤنڈ ڈالر اور اب یورو کی ریل پیل والے کو امیر کہنا شروع کر دیا گیا ہے اس لائف سٹائل نے ہماری بنیادی خوراک کی ضرورتوں کو پورا کرنا بھی مشکل بنا دیاہے یہاں تک گھر کے کوڑادان بازار ی اشیاء کے خالی ڈبوں سے بھرے پڑے رہتے ہیں دودھ کے لیے مارے مارے پھرنا اور شکوہ شکایت کے باوجود خالص دودھ کا نہ ملنا ،انڈوں اور گوشت کے حصول کے لیے دور دراز تک رابطوں کو بروئے کار لانا پھر بھی دیسی نہ ہونے کا ڈر لگے رہنا مکھن، پنیر ،گھی سے کوسوں دور بھاگنا کہ یہ توخالص ہو ہی نہیں سکتے اس سب نے ہماری امیری کو بھی گہنا دیا ہے یہ غربت ہماری بسیار کوشش کے باوجود نہیں جاتی اس کے لیے جب تک کہ خود کو مصروف نہیں کریں گے دلچسبی کا مظاہرہ نہیں کریں گے یہ محتاجی اور غربت کبھی بھی دور نہیں ہو گی اس غربت کو دور کرنے کے لیے موجودہ پنجاب حکومت اور اس کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے دیہی علاقوں میں کئی پروگرام شروع کر رکھے ہیں گھروں میں سبزیاں کاشت کرنے کے لیے مفت بیج تقسیم کیے گئے کچن فارمنگ /گارڈنگ کے لیے حوصلہ افزائی اور آگاہی مہم شروع کر رکھی ہے گوشت اور دودھ کی ضروریات کو مقامی سطح پر ہی پورا کرنے کے لیے ساہیوال نسل کے چھوٹے جانور (بچھیاں اور کٹیاں)یونین کونسل کی سطح تک لوگوں کو دئیے جارہے ہیں مویشی فارم کے لیے حکومتی معاوضے پر رضا کار بھرتی کیے جارہے ہیں انڈے اور مرغی کے گوشت کے حصول کے لیے تحصیل کی سطح پر رعائتی نرخوں پر اعلی نسل کی پانچ مرغیوں اور ایک مرغے پر مشتمل100پولٹری یونٹس تقسیم کیے جارہے ہیں یہ پہلا مرحلہ ہے پنجاب بھر میں ایسے بارہ ہزار یونٹس تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے جن گھروں کے قریب تالاب ہیں ان کو ۔ بطخیں مفت فراہم کی جارہی ہیں دیہی علاقہ کی روایت رہی ہے کہ جب بھی مہمان کی تواضع کی جاتی تھی تو اس میں دیسی مرغی، دیسی انڈے، خالص دودھ،دہی اور مکھن شامل ہوتا تھا اب تو مہمان بھی مصنوعی چیزوں کے تحفے لاتا ہے اور اس کی تواضع بھی مصنوعی اجزاء اور مختلف کیمیائی عمل کے ذریعے تیار کی گئی مصنوعات شیور مرغی،انڈوں، ڈبہ بند دودھ ،دہی اور ڈیری مکھن سے کی جاتی ہے۔بڑے گوشت اور اس سے تیار کیا گیا قیمہ سے لوگ کوسوں دور بھاگتے ہیں ایک وقت تھا کہ ہر گاؤں میں ایک صحت مند مویشی ذبح کیا جاتا تھا اور گاؤں کی مسجد میں اعلان کیا جاتا تھا کہ اپنی ضرورت کے مطابق گوشت لے جائیں ہفتے کے ایک یا دو مخصوص دنوں میں خاص جگہ پر مویشی کا گوشت ملتاتھا ہماری آنکھوں کے سامنے شرعی اصولوں کے مطابق مویشی ذبح ہوتا اوراہل دیہہ گوشت پکانے کے لیے لے کر جاتے تھے اب نہ تو ہمیں گوشت کا پتہ ہوتا ہے کہ یہ کس جانور کا ہے اور کہاں سے آیا ہے الحفیظ الامان جو خبریں پڑھنے اور سننے میں آچکی ہیں اس کے بعد تو بڑے گوشت سے لوگ دوررہنے میں عافیت سمجھتے ہیں دیسی مرغیاں دگنی قیمت پر مل رہی ہیں مگر وہ بھی مصری اور گولڈن شکلوں میں، رنگ کئے گئے انڈے دیسی سمجھ کر لوگ خرید رہے ہیں گھروں میں گنجائش بھی ہے اخراجات بھی برداشت کر سکتے ہیں صرف اور صرف نگہداشت نہیں کر سکتے اس سے جان چھڑانے کی خاطر ہم نے گھریلو مشقت کو اپنی زندگیوں سے نکال رکھا ہے خود کفالت اور ضرورت دونوں ہماری سوچوں سے نکل رہی ہیں محتاجی اور انحصار بڑھتا جار ہا ہے پہلے پہل یہ چیزیں فخر سمجھی جاتی تھیں اور اب ان کو معیوب خیال کیا جاتا ہے اگر یہ چیزیں گھروں میں رکھنا اور پالنا معیوب اور بلا ضرورت ہوتا تو حکومت ہرگز یہ پروگرام شروع نہ کرتی اگر ہمارا لائف سٹائل متاثر ہورہا ہوتا ،ہماری صحت پر اس کے مضر اثرات ہوتے تو کبھی بھی ہمیں اس طرف متوجہ نہ کیا جاتاہمارے بچوں ،بوڑھوں کی زندگیوں کو ان چیزوں سے اگر نقصان کا خطرہ ہوتا تو آج کی عمروں اور ہمارے بزرگوں کی طبعی عمروں میں اتنا فرق نہ ہوتا دل کی بیماریاں عام نہ ہوتیںآج ہمیں صحت کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف ورزشوں اورپرہیز کا سہارا لے رہے ہیں مگر خالص غذا کے حصول اور اس کے حصول کے ذرائع کو بروئے کار نہیں لا رہے ایک مرتبہ پھر ہم فطری ذرائع خوراک کی طرف لوٹ رہے ہیں مٹی کے برتنوں کا استعمال ،بغیر چھنے آٹے کی روٹی اور دیگر ہمارے آباؤ اجداد کے طرز زندگی کے طریقے اپنانا ہوں گے۔{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں