گھروں میں کام کرنیوالی کمسن بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانا معمول بن چکا پولیس کی روائیتی بے حسی ملزمان جرم کرنے کے باوجود صاف صاف بچ جاتے ہیں
وطن عزیز میں گھریلو تشددسمیت گھر میں کام کاج کرنیوالی بچیوں پر تشدد ایک بہت بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے ہیومن رائٹس واچ کی جانب کچھ سال قبل کی گئی تحقیق کے مطابق پاکستان میں 10 سے 20 فیصد خواتین کو کسی طرح کی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جبکہ گھریلو تشدد سے ہر سال ایک اندازے کے مطابق 5000 خواتین ہلاک ہوجاتی ہیں اس تشدد میں سب سے اہم عنصر گھریلو خواتین پر تشدد ہیکم سن اور گھریلو ملازمین پر تشدد کوئی نہیں بات نہیں گزشتہ سال اگست میں ایک جج صاحب کی بیوی نے کمسن گھریلو ملازمہ کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا
وہ تو بھلا ہو میڈیا کاجسکی بدولت مظلوم فیملی کو کچھ انصاف کی نوید ملی اسی طرز کا ایک واقع گزشتہ روز تھانہ روات کی حدود میں واقع بحریہ ٹاون میں افسوسناک واقعہ سامنے آیا
جہاں پر بااثر ملزمان نے اپنی پرانی گھریلو ملازمہ پر چوری کا الزام لگا کر اس کے سامنے اس کے شوہر اور 14سالہ بیٹے کو ننگا کر کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اس کیس کی مدعیہ عقیلہ بی بی نے پولیس کو دی گۂ درخواست میں بتایا
کہ وہ گزشتہ تقریبا ڈیڈھ سال سے ہاؤسنگ سوسائٹی میں نوید نامی شخص کے گھر ملازمت کرتی ہے مارچ کی 23تاریخ کو نوید کے گھر چوری ہوئی تو نوید کی اہلیہ فرزانہ نے کہا
کہ آج شام کو کام پر مت آنا ہم گھر نہیں ہوں گے اگلے روز کام پر جانے پر انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر چوری ہوئی ہے جس کے بعد وہ حسب معمول دو ٹائم کام پر جاتی رہی 28مارچ کو جب کام پر گئی تو اہل خانہ نے برا بھلا کہنا شروع کر دیا
شام کے وقت جب شوہر سرور مسیح اور اس کا14 سالہ بیٹا لینے آئے تو انہوں نے دونوں کو مجھ سے الگ کر کے ان کے کپڑے اتار کربرہنہ کیا اور ان پر تشدد شروع کر دیا
میں وہاں موجود تھا مالکان کی منت سماجت کی لیکن وہ مجھے بھی پکڑ کر ان کے پاس لے گئے جہاں ان کے دونوں بیٹے عباس اوربکر کے علاوہ 4نامعلوم افراد بھی تھے
جن میں سے ایک حمزہ کے نام سے پکار رہے تھے اس طرح انہوں نے ہم تینوں کو کمپیوٹر کی تاروں سے تشددکا نشانہ بنانا شروع کردیا اور ہمیں کہا کہ مان جاو نہیں تو جان سے جاو گے اور لاشوں کا پتہ بھی نہیں چلے گا
جب تھک گے تورات گئے گاڑی میں ڈال کر ہمیں اسلام آباد ہائی وے پر چھوڑ گئے انہوں نے ہم سے موبائل موٹر سائیکل، اور نقدی بھی چھین لی تاہم پولیس اس بااثر شخص کی وجہ مقدمہ کے اندراج میں لیل لعیت سے کام لیتی رہی
بعد ازاں مقدمہ درج کرنا پڑااس کیس کی بازگشت ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ گزشتہ روزبحریہ فیز فور میں ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنے والی سولہ سالہ آمنہ کی گلے میں پھندہ لگی لاش برآمد ہوئی متوفیہ کا والد چار ماہ قبل وفات پاگیا تھا
مالکان کا کہنا تھا کہ آمنہ نے خود کشی کی ہے جبکہ لواحقین کا کہنا ہے کہ آمنہ کو قتل کر کے وقوعہ کو خودکشی کا رنگ دیا گیا اس بات کا فیصلہ تو پولیس کی تفتیش کرے گی کہ یہ قتل عمد ہے یا خود کشی لیکن اس واقع متعلقہ چند اہم باتیں جو زرائع بتا رہے ہیں
کہ لڑکی کا بھائی دعویدار ہے کہ اسکی بہن کی عمر سولہ سال ہے جبکہ اسی گھر کا ملک جسکا نام عمر ہے اسکا دعوی ہے کہ آمنہ کی عمر 20 سال جبکہ زرائع سے ملنے والی میڈیکل رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے
کہ آمنہ کی عمر28 سال ہے یہ کیس اسلام آباد کی حدود کا ہے اسی طرز کا تیسرا کیس بھی جسے ابھی تک دبا کر رکھا گیا ہے وہ بھی راولپنڈی کے ایک تھانہ کی حدود کا ہے جہاں ایک انتائی بااثر شخص نے چوری کے نام پر دو کمسن بہنوں کو تشدد کا نشانہ بنایاہے
،لیکن تاحال اس کیس کو گول مول کرنے کی کوشش جاری ہے پوش سوسائٹی میں رہنے والوں کے لیے قانون ایک رکھیل کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ جب چاہتے ہیں اس سے کھیل لیتے ہیں