قارئین کرام! جب سے ہوش سنبھالا ہے گوجرخان شہر کو اسی طرح لاوارث دیکھ رہے ہیں، لاوارث کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ یہاں تاجروں کے نمائندے کہلانے والے اور عوام کے نمائندے کہلانے والوں نے اپنے مفادات کو ہمیشہ مقدم رکھا، سیاست نے عوام کو شہریوں کو تاجروں کو ہمیشہ استعمال کیا کبھی کس نعرے کی بنیاد پر اور کبھی کس نعرے کی بنیاد پر شہریوں کو بیوقوف بنایا جاتا رہا، آج تک شہر میں سیکورٹی کیمرے نصب نہیں ہو سکے، بازاروں میں ہونے والی ڈکیتیوں چوریوں کے ملزمان تک نہیں پکڑے جاتے البتہ ہر واردات کے بعد فوٹوسیشن ضرور ہوتے ہیں، تاجروں کے اختلافات نے شہر کی ترقی میں روڑے اٹکا رکھے ہیں، پہلے یہاں تاجر سیاست میں ڈکٹیٹیرشپ تھی پھر یہاں جمہوریت کا نعرہ لگا کر الیکشن کرائے گئے اور منتخب تاجر نمائندوں اور اپوزیشن کی کھینچا تانی نے ماحول مزید خراب کر دیا، ہر سال کی طرح اس رمضان میں بھی چوری ڈکیتی کی وارداتوں نے شہریوں کا جینا محال کر رکھا ہے، مسلم سکول کے قریب لڑکے کو مبینہ ڈکیتی کے دوران قتل کر دیا جاتا ہے، شہر کے بیچوں بیچ حلوائی گلی میں ڈکیتی کی واردات ہوتی ہے، علی الصبح جی ٹی روڈ اور سروس روڈ پر لوگ لُٹ رہے ہیں اور پولیس موقع پر پہنچ کر فوٹوسیشن اور نوٹس نوٹس کھیل رہی ہے، پولیس سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں یہاں ہم بھی کیا کریں دن کو مفت آٹے کا تحفظ کرتے ہیں لائنیں بنوانے میں لگے رہتے ہیں شام کو تراویح کی ڈیوٹیاں کرتے ہیں رات کو گشت کرتے ہیں ہم بھی انسان ہیں، کہتے وہ بھی ٹھیک ہیں کیونکہ ان سے وہ کام لیا جا رہا ہوتا ہے جو انکی ذمہ داری نہیں بنتی۔گوجرخان شہر میں سرکاری سطح پر ایک واٹر فلٹریشن پلانٹ ہاوسنگ سکیم میں نصب ہے جس کا پانی معیاری و صاف ستھرا ہونے سے متعلق کوئی گارنٹی نہیں جبکہ تحصیل روڈ پر فلٹریشن پلانٹ دو سال سے مکمل بند ہے، ”بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا“ کے مترادف سی سی ٹی وی کیمروں اور سیکورٹی گارڈز کے بارے میں بہت شور سنتے آ رہے ہیں مگر نہ ہی سرکاری سطح پر اور نہ نجی سطح پر ایسا کوئی اقدام اٹھایا جا سکا جس سے شہر کو سیف سٹی بنایا جا سکے، شہر میں ٹریفک کنٹرول سسٹم بیکار ہے تیزرفتاری کئی جانیں لے چکی ہے مگر روڈ پر لگے جنگلے آج تک بند نہیں ہو سکے اور نہ گاڑیوں کی حد رفتار پہ عملدرآمد ہو سکا، لیکن بات یہ ہے کہ کس کس مسئلے پہ سر پیٹیں؟ قارئین کرام! راقم نے اپنے بارہ سالہ صحافتی کیریئر میں گوجرخان شہر میں قانون کی رٹ کو قائم ہوتے گزشتہ برس دیکھا جب یہاں اسسٹنٹ کمشنر غلام عباس اور چیف آفیسر تنویر عباس تھے، شہر میں بلاتفریق تجاوزات کیخلاف آپریشن ہوئے دکانوں پلازوں کے باہر بنے غیرقانونی تھڑے توڑے گئے سالہا سال سے انڈرپاس پر قائم خود ساختہ تجاوزات کو مسمار کیا گیا، پرائس کنٹرول پہ سختی سے عملدرآمد کرایا گیا اور کئی دکانداروں کو پہلی بار جیل کی ہوا کھانی پڑی، گوجرخان تحصیل میں پہلی بار ایک ایک شاپنگ مال کو لاکھ لاکھ روپے جرمانہ ہوا جو ڈسکاؤنٹ کے نام پر ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹتے آ رہے تھے، مگر ان دونوں افسران کے جانے کے بعد گوجرخان کی حالت پہلے سے بھی ابتر ہو چکی ہے، بازاروں میں تجاوزات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ گزرنا مشکل ہو چکا ہے دکاندار اتنا سامان دکان کے اندر نہیں رکھتے جتنا باہر لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں، گزشتہ دنوں بازار کا رُخ کیا تو نام نہاد تاجر نمائندے ٹکر گئے میں نے اونچی آواز میں سب کے سامنے ہی کہہ دیا کہ تاجر پھر کہتے ہیں بلدیہ والے زیادتی کرتے ہیں یہ حالت واقعی زیادتی والی بنا رکھی ہے تو انہوں نے ہنس کر بات کو ٹال دیا اور کر بھی کیا سکتے تھے کیونکہ اس بات کا انکے پاس جواب تو تھا نہیں۔شہر کے دیگر مسائل کی بات کریں تو صفائی کی ابتر صورتحال نے شہریوں کا جینا محال کر رکھا ہے، رمضان المبارک کے دوران حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ چیف آفیسر کی رہائشگاہ کے سامنے گلی میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہوتا ہے اور پیدل چلنا بھی محال ہوتا ہے نالے گندگی سے اٹے ہوئے ہیں جن سے گندہ پانی باہر اُبل رہا ہوتا ہے باقی شہر کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں، سروس روڈ کے اطراف میں بنے نالے مٹی سے اٹے ہوئے ہیں جنکی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا، یہاں کے بڑے انتظامی افسر کے بقول چیف آفیسر نااہل شخص تعینات ہے جس سے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا لیکن اسی چیف آفیسر کیساتھ تاجروں کے نام نہاد و نااہل ترین نمائندے فوٹوسیشن کرا رہے ہوتے ہیں جیسے شہر میں کوئی مسئلہ ہی نہیں اور یہ منافقت کی انتہاء ہے۔یہ اتنے بڑے بڑے مسائل کب حل ہونگے؟ جب ہم اہل ہوں گے اور اہل بندوں کو قیادت سونپیں گے زنجیر ہلانا ہمارا کام ہے وہ ہم ہلاتے رہیں گے والسلام
130