موسم اچھا ہوتو راستہ تلاش کرنا مشکل نہیں ہوتا لیکن اگر طوفان آیا ہوا ہو تو راستے مشکل تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور ایسے میں عقلمند انسان اپنے ہمسفر اور ساتھیوں کے ساتھ جڑ کر آگے بڑھنے کی سعی کرتا ہے وہ انسان ہمیشہ نقصان اُٹھاتا ہے جو خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے سنگین حالات میں بھی اپنی انا پرستی اور خودنمائشی سے باز نہیں آتا گوجر خان مسلم لیگ بھی آجکل کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے جہاں کے مقامی رہنما پارٹی کو درپیش چیلنجز سے نپٹنے کے لیے یکجہتی اور ثابت قدمی کا پیغام دینے کے بجائے اپنی الگ الگ ڈیڑھ ا نچ کی مسجد بنائے ہوئے ہیں۔ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں اور جس قانون و قائدے کے تابع ہیں ان کا دستور ہی منافقت‘حق تلفی اور مفادات کا حصول ہے اپنے ذاتی مفادات کے لیے دوسروں کو مبتلائے فریب کرنا ہمارے سماج کا رواج ہے ایک آدمی کیا یہاں گروہ کے گروہ ایسے افعال میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔فیلڈ کوئی بھی ہو ہر جگہ یہی کلیہ اپنایا جاتا ہے۔میں اور میری ذات اس پر سب قربان کیا جاسکتا ہے۔رشتے ناطے پیار ومحبت‘نظریات سیاسی وابستگی سب کچھ انا اور مفاداتی سوچ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ایک جماعت سے دوسری اور دوسری سے تیسری میں آنا جانا ان سیاست دانوں کے نزدیک کوئی معیوب بات نہیں حد تو یہ ہے کہ اپنی جماعت سے وابستگی رکھتے ہوئے پارٹی ڈسلپن اور پارٹی نظریات کو پاوں تلے روندنے پر قطعی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی ایسا ہر بڑی سیاسی جماعت میں نظر آتا ہے لیکن مسلم لیگ ن اس حوالے سے سب پر سبقت رکھتی ہے جس کے رہنماء مرکزی سطح سے مقامی سطح تک یہی کھیل کھیلتے ہیں مقامی سطح پر تو دھڑلے سے مفاداتی سیاست کی جاتی ہے جس کاثبوت 2013 اور2018 کے الیکشن ہیں جن میں مقامی رہنماؤں کی ذاتی رنجش مفادات اور انا پرستی کے باعث پارٹی مفادات کو نقصان پہنچایا گیا۔الیکشن کے دوران لیگی دھڑوں نے پارٹی ٹکٹ ہولڈروں کی کھل کر مخالفت کی اور مخالف سیاسی جماعتوں کی مدد کی گئی اور انتہائی ڈھٹائی سے خود کو نظریاتی مسلم لیگی بھی گردانا گیا اور اب بھی مختلف دھڑے خود کو نظریات سے جوڑے ہوئے ہیں جبکہ ان کا نظریات اور پارٹی مخلصی سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔اس وقت بھی گوجرخان مسلم لیگ اسی ڈگر پر ہے جہاں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس وقت گوجر خان مسلم لیگ میں شوکت بھٹی‘چوہدری افتخار وارثی اور چوہدری ریاض الگ الگ گروپوں میں تقسیم ہیں راجہ جاوید اخلاص دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھنے کی کوشش میں ہیں وہ افتخار وارثی کے ساتھ بھی راز ونیاز کرتے ہیں اور چوہدری ریاض کے ساتھ بھی شِیر وشکر نظر آتے ہیں ان کے ساتھ آخر میں یہ ہونا ہے کہ کوئی گروپ ان پر اعتماد نہیں کرے گا۔سب لوگ اپنی اپنی ڈفلی بجانے میں مصروف ہیں اس وقت مسلم لیگ گوجر خان پورس کے ہاتھیوں کی زد میں ہے جہاں جماعت سے مخلصی کہیں دیکھائی نہیں دیتی۔تمام رہنماؤں کو پارٹی مفاد میں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا جہاں پارٹی کے لئے اہم ہے وہیں مقامی رہنماؤں کی سیاسی بقا کے لیے بھی ضروری ہے۔لیکن دور دور تک ایسی کوئی شخصیت دیکھائی نہیں دیتی جو ان دھڑوں کو یکجا کرسکے اس وقت اگر کوئی لیگی گوجرخان مسلم لیگ کو متحد کر کے ایک پلیٹ پر لانے کی پوزیشن میں ہے وہ مسلم لیگ فرانس کے چیئرمین راجہ علی اصغر کی ذات ہے جو اس وقت واحد مسلم لیگی ہیں جو کسی گروپ کا حصہ نہیں ہیں وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مسلم لیگ کے بہترین مفاد میں کسی ایجنڈے پر متفق کرکے ایک پلیٹ فارم سے مشترکہ جدوجہد کے لیے قائل کر سکتے ہیں۔راجہ علی اصغر مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماؤں سے براہ راست رابطے رکھنے والی شخصیت ہیں۔پارٹی سے محبت لیڈر سے انسیت اور وفادری انسان کے اندر سانس لیتی ہے جو اپنی ذمہ داری نبھانے اور فرض شناسی یاد دلاتی ہے لیکن یہاں سب کچھ الگ ہے۔یقیناً ہر رہنماء اسمبلی تک رسائی کی خواہش رکھتا ہے لیکن اس کے لیے پارٹی کو داؤ پر لگانا پارٹی سے وفاداری نہیں میرے مشاہدات کے مطابق افتخار وارثی وہ شخصیت ہیں جو حلقے میں ایک وسیع ووٹ بینک رکھتے ہیں اور کسی بھی امیدوار کو جتوانے اور ہروانے کی صلاحیت رکھتے بھی ہیں جس کا ثبوت وہ 2013 اور 2018 کے الیکشن نتائج سے دے چکے ہیں۔انہیں کارنر کر کے مسلم لیگ کسی صورت فتح یاب نہیں ہوسکتی۔مسلم لیگ کا ٹکٹ ہولڈر کوئی بھی ہوں انہیں افتخار وارثی کو ان کے سیاسی قد کاٹھ کے مطابق عزت دے کر ساتھ چلانا ہو گا۔شوکت بھٹی کو ان کے وزن کے مطابق عزت دینا ہوگی۔بصورت دیگر رزلٹ 2018 سے قطعی مختلف نہیں ہوگا۔
