بیوروکریسی نے پورے ملک میں ایسے پنجے گاڑ رکھے ہیں کہ ان کے سامنے تبدیلی سرکار بے بس دکھائی دے رہی ہے، پنجاب کی بات کی جائے تو” ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا “کے مصداق ہر ضلع اور ہر تحصیل میں ایسے ایسے لوگ ”انھے واہ “ تعینات ہیں جن کی تعیناتی کے پیچھے کسی نہ کسی بڑے کی سفارش کارفرما ہے، مجھے یاد پڑتاہے کہ یہاں تھانہ گوجرخان میں ایک مشہور شخصیت بطور ایس ایچ او تعینات تھی جس کا خراب کارکردگی پر سی پی او راولپنڈی نے تبادلہ کیا تو موصوف نے اپنے ایک اعلیٰ عہدے پر براجمان قریبی رشتہ دار کی سفارش پر سی پی او کا تبادلہ کروا کر اپنا دوبارہ تبادلہ گوجرخان کروا لیا تھا، بعد ازاں ان پر منشیات فروشوں سے پیسے لینے کا بھی الزام لگا تھا، گوجرخان کی مجموعی صورتحال پر بات کی جائے تو تھانہ ، کچہری، بلدیہ ، تحصیل آفس، اراضی ریکارڈ سنٹر ، پٹواری ، تحصیلدار ، گرداور ، آئیسکو ، سوئی گیس ، ٹیلیفون ، ایکسائز میں عرصہ دراز سے مستقل طور پر ملازمین تعینات ہیں جن کا تبادلہ کیاجانا ایک خطرناک عمل اس لئے ہے کیونکہ انہوں نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں ،گزشتہ روز ملک انور صوبائی وزیر مال کو بھی آگاہ کیا گیا کہ یہاں عرصہ دراز سے پٹواری تعینات ہیں ان کا تبادلہ نہیں ہوتا تو موصوف نے بھی سنی ان سنی کر دی، پنجاب میں قانون سازی ہوگی اس بات کو سوچنا بھی جرم ہے، کیونکہ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے پاس اکثریت نہیں ہے اور نہ ہی تحریک انصاف اور اس کے اتحادی چاہتے ہیں کہ پنجاب میں کوئی تبدیلی آئے، سارے روایتی سیاستدان ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں جو اپنی اجارہ داری برقرار رکھنا چاہتے ہیں، پنجاب پولیس میں اصلاحات کے بڑے نعرے لگائے تھے، سانحہ ماڈل ٹاﺅن ہوا تو عمران خان نے کہا کہ ساری پولیس گلو بٹ ہے ہم آکر ان کا قبلہ درست کریں گے مگر تین آئی جی تبدیل ہو گئے کوئی تبدیلی نظر نہ آئی، جنوبی پنجاب میں پولیس ملازمین گھروں میں گھس کر خواتین کو مارتے پیٹتے ہیں لوگوں کو گھسیٹتے ہیں ان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں جو کہ تبدیلی اور نئے پاکستان میں ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ، بات کی جائے صرف تحصیل گوجرخان کی تو یہاں پر موجودہ صورتحال شہریوں کیلئے اذیت ناک ہے، صفائی کی صورتحال ناگفتہ بہ ، نالے گندگی سے اٹے ہوئے، نالیاں گلیاں رہائشی خود صاف کرنے پر مجبور ، واٹر سپلائی کا پانی وہ ملتاہے جو گندے پانی سے مزین و معطر ہوتاہے، سیوریج سسٹم کی بدحالی اپنی الگ داستان بیان کررہی ہے، قبضہ مافیا کا راج ہے، تجاوزات مافیا نے پیدل چلنا دشوار کررکھاہے اور تو اور جی ٹی روڈ پر بھی قبضہ مافیا قابض ہے،گلیانہ موڑ سے لے کر بڑکی موڑ تک سروس روڈ پر بلڈنگ مٹیریل سپلائرز نے اپنی الگ الگ دکانیں لگا رکھی ہیں اور ریت بجری وغیرہ سروس روڈ پر پھینک رکھی ہے،جی ٹی روڈ چوک میں ریڑھی بانوں نے قبضہ کررکھا ہے جس سے عوام اور ٹرانسپورٹ کی آمدورفت میں شدید خلل پڑتاہے اور روزانہ کئی حادثات ہوتے ہیں، انڈر پاس اور اوورہیڈبرج سے گزرنے کیلئے عوام کا دل نہیں مانتا، جی ٹی روڈ پر لگے جنگلے بند کرنے کیلئے انتظامیہ کا دل نہیں مانتا، اوورہیڈبرج گندگی سے اَٹے ہوئے ہیں اور نشئیوں کی آماجگاہ ہیں، پارکنگ کا نظام بری طرح متاثر ہے،پارکنگ کیلئے گوجرخان شہر میں جگہ ہی موجود نہیں، جی ٹی روڈ پر حیاتسر روڈ سے ڈی ایس پی دفتر تک دونوں اطراف پورا دن گاڑیاں کھڑی رہتی ہیںجس سے ٹریفک کی روانی میں خلل آتاہے لیکن موٹروے پولیس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، جنرل بس سٹینڈ میں عوام کو کوئی سہولت دستیاب نہیں، حال میں ہی جنرل بس سٹینڈ میں تمام اڈے شفٹ کئے گئے ہیں لیکن اڈہ فیس لینے والے ٹھیکیدار کی جانب سے کوئی سہولت نہیں دی گئی جو دینا ٹھیکیدار کی ذمہ داری ہے ، الغرض بات وہی ” ہر شاخ یہ اُلو بیٹھا ہے“۔ بات کی جائے اختیارات کی تو اس وقت ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری جاوید کوثر کے بعد انتظامی اختیارات کا سرچشمہ اسسٹنٹ کمشنر سیمل مشتاق ہیں جن کی ناقص کارکردگی نے عوام کو سابق اسسٹنٹ کمشنر غلام مصطفی کی یاد دلانا شروع کر دی ہے، جب سے سیمل مشتاق کی تعیناتی ہوئی ہے تب سے اب تک انتظامی حوالے سے ناکامیاں ہی ناکامیاں نظرآرہی ہیں، اراضی ریکارڈ سنٹر ، پٹواری ، گرداور ، تحصیلدار ، ٹی ایم اے عملہ کرپشن میں غوطہ زن ہے، شہر میں صفائی کی صورتحال ایسی ہے کہ گرمی کے موسم میں کئی کئی دن تک ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا عملہ محلوں سے گندگی نہیں اُٹھا رہا جس کی وجہ سے شہری علاقوں میں وبائی امراض پھیل رہے ہیں، چونکہ بلدیاتی اداروں کے بعد ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ بھی اسسٹنٹ کمشنر کے پاس ہے اس لئے بلدیہ عملہ کو بھی محترمہ لگام دینے میں بری طرح ناکام ہیں ، باوثوق ذرائع کے مطابق بلدیہ عملہ تجاوزات کے قائم کرنے کی بڑی وجہ ہے اور بلدیہ اہلکار روزانہ اور ماہانہ کی بنیاد پر دکانداروں سے وصولی کرتے ہیں ، دو ماہ سے زائد ہونے کو ہیں اسسٹنٹ کمشنر نے بازار کا دورہ کر کے تاجروں سے ان کے مسائل نہیں پوچھے، مین بازار و دیگر جگہوں کے تاجر بھی اپنی دوکانات کے سامنے ریڑھی بانوں سے روزانہ پیسے لے کر ریڑھیاں لگوا لیتے ہیں اور عوام کا گزرنا محال ہو جاتاہے، اسسٹنٹ کمشنر دفتر کے پڑوس میں ہاﺅسنگ سکیم نمبر 1 واقع ہے جہاں سیوریج سسٹم کی بدحالی نے شہریوں کی ناک میں دم کررکھا ہے لیکن محترمہ چونکہ جی ٹی روڈ استعمال کرتی ہیں اس لئے عوام کی مشکلات کا ان کو اندازہ نہیں ، شہر کے مسائل سے چشم پوشی پر عوامی حلقے سراپا احتجاج ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر خود میدان عمل میں آئیں اور عوامی مسائل کو دیکھیں اور ان کو حل کرنے کیلئے اداروں و ملازمین کو حرکت میں لائیں ۔
241