آصف خورشید
اٹھتے رہے کلیوں کی جوانی کے جنازے جلتے رہے پھولوں کے نگر شہر میں تیرے
تحصیل کلر سیداں کی یونین کونسل منیاندہ کے علاقہ انچھوہا میں واقع گورنمنٹ پرائمری سکول دھمنال جہاں دو روز قبل مقدس پیشے سے وابستہ روحانی باپ نے استاد کی بجائے جنسی بھڑیے کا رو پ دھار لیا اور ایک مخصوص عرصے سے درندہ صفت شخص معصوم کلیوں کو سبق سننے کے بہانے یا سزا دینے کے بہانے الگ کمرے میں لے جاتا اور ان کے ننھے جسموں سے اپنے حوس کو بہلاتا ۔ درندہ صفت یہ شخص ہید ماسٹر گورنمنٹ پرائمری سکول ہ ان معصوم کلیوں کے ان جسموں سے کھیلتا جو جسم شاید ابھی فنِ بلوغت کو بھی نہ پہنچے تھے ۔ انتہائی پسماندہ علاقہ اور جنگل میں سکول ہونے اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث تمام تر خطرات کو بلائے تاک رکھتے ہوئے دیدہ دلیری سے یہ کام انجام دیتا ۔ مگر شاید وہ اس بات سے ناواقف تھا کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور وہ یہ بات بھی بھول چکا تھا کہ ایک دن وہ قانون کے کٹہرے میں آ سکتا ہے ۔ شیطان نے اس کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈالا کہ درندہ صفت ہیڈ ماسٹر چند ہفتے قبل ایک معصوم بچی جو کلاس پنجم کی طالبہ تھی سبق سننے کے بہانے الگ کمرے میں لے گیا اور اس کے جسم سے سزا دینے کے بہانے کھیلتا رہا ۔ اس طرح کچھ دیگر سٹوڈنٹ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا رہا ۔ معصوم کلیاں خوف کے مارے کچھ نہ بتاتی اور اپنی اس عمر میں ہونے والی زیادتی چپ کر کے سہہ جاتی ۔ چار دن قبل کلاس پنجم کی ایک طالبہ کو جب اس ہیڈ ماسٹر نے حراساں کرنے کی کوشش کی تو کچھ طالبِ علموں نے اس کی حرکتوں کو چانچ لیا اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے ۔ مگر ڈر کے مارے بولنے سے قاصر تھے ۔ ایک لڑکی نے گھر جا کر اپنے والدین کو آگاہ کیا جب والدین نے رابطہ کیا تو غریب ہونے کے ناطے پہلے انہیں دھمکیاں دی گئی ۔ پھر یہاں تک کہا گیا کہ قانون ہماری جیب میں ہیں جو کرنا ہے کر لیں ۔ معاملے نے زور پکڑا اور اسکول سٹاف نے یہاں کے سیاسی وڈیروں سے رابطہ کیا جنہوں نے اپنی چوہدراہٹ برقرار رکھنے کیلئے اس کو یقین دلایا کہ کوئی بات نہیں یہی پر معاملہ حل کروا دیں گے اور اس معاملے کو رفع دفع کرنے کیلئے دو دن گزر گئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے علاقے میں پھیل گئی اور یہ شخص اپنا موقف بیان کرتے ہوئے ٹال مٹول سے کام لیتا رہا اور اسکول سے بھی غیر حاضر رہا ۔ آخرکار جمعرات کی صبح جب یہ اسکول پہنچا تو علاقے کے کچھ لوگ جن میں اکثریت والدین کی تھی سکول پہنچ گئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے معاملہ بگڑ گیا اور لوگوں کا اشتعال بھی بڑھتا گیا ۔ حتیٰ کہ میڈیا کی ٹیم بھی اس اسکول میں پہنچ گئی ۔ جب میڈیا کی موجودگی میں بچوں سے سوالات پوچھے گئے تو کم و بیش آدھی کلاس اس درندہ صفت ہیڈ ماسٹر کے خلاف اپنی شکایت کرنے لگی ۔ جن کی عزتوں کے ساتھ یہ شخص مختلف اوقات میں کھیلتا رہا ۔ جب شکایات حد سے بڑھ گئی تو اہلِ علاقہ بالخصوص والدین مشتعل ہو گئے اور انہوں نے اپنا غصہ اتارنے کی کوشش کی جس پر کچھ بااثر لوگوں کی مداخلت پر اس شخص کو ہجوم سے نکال کر سائیڈ پر کر دیا گیا ۔ حالات کشیدہ ہونے پر پولیس کو اطلاع کی گئی جس پر پولیس نے ہمراہ ایجوکیشن آفیسر کے بروقت کارروائی کی اور ملزم ہیڈ ماسٹرکو گرفتار کر کے تھانہ کلر سیداں لے گئی ۔ جہاں ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم نے ان لڑکیوں کے علاوہ آٹھ سے دس سال کے درمیان بے شمار سٹوڈنٹس کے ساتھ جنسی طور پر حراساں کرنے پر اعتراف بھی کیا ۔ ملزم کا مزید ریمانڈ حاصل کر لیا گیا اور اسے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ۔ مزید تفتیش جاری ہے ۔ جہاں پولیس، میڈیا اور خاص طور پر اہلِ علاقہ کے تعاون سے اس بھیڑیا صفت درندے کو بے نقاب کیا گیا ۔ وہاں چند سوال بھی اٹھتے ہیں ۔ یہ سلسلہ اس اسکول میں کتنے عرصے سے جاری تھا؟ یہ شخص کتنی معصوم کلیوں کے جسموں سے کھیل چکا ہے ؟ کیا اس کی پشت پناہی پر مخصوص لوگوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے یا یہ اس کا ذاتی فعل ہے ؟ تشہیر کے بعد کیا والدین کو انصاف ملے گا یا بااثر لوگ اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر اس معاملے پر مٹی ڈال دیں گے ؟ ۔ محکمہ تعلیم کے آفیسر ان پسماندہ سکولوں میں کس حد تک اپنا چیک اینڈ بیلنس رکھتے ہیں ؟ یہ لڑکیوں کیلئے لیڈیز ٹیچر کیوں نہیں لگائی گئی ؟ اگر اس معاملے میں میڈیا اور پولیس اور اہلیانِ علاقہ اپنا کردار ادا نہ کرتے تو یقیناًیہ درندہ صفت شخص عنقریب زینب کے واقعے کو دوہراتا ۔ پنجاب حکومت سے واقعہ کی فوری غیر جانبدار انکوائری کروائے اور مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دلوائے تاکہ اس لبادے میں چھپی کالی بھیڑیں جو کہ اس مقدس پیشے کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں نکالا جائے ۔
شکایت ہے یارب مجھے ان خداوندانِ مکتب سے سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
110