97

کہوٹہ،منشیات کا بڑھتا رجحان ذمہ دار کون؟

پچھلے چند سالوں کی اگر بات کی جائے تو یقیناً کہوٹہ اور گردونواح میں پہلے کے حالات اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ کہوٹہ جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بن چکا ہے۔جن جن جرائم کیوجہ سے ہمارا معاشرہ اور ہماری نسلیں تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہیں ان میں سرفہرست چوری ڈکیتی منشیات فروشی اور رشوت ہے۔پچھلے چند سالوں میں کہوٹہ اور گردونواح میں یہ تمام جرائم اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ دن بدن ان میں مزید اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے جس سے کہوٹہ شہر سمیت گردونواح کا کوئی بھی دیہات اور گاؤں محفوظ نہیں رہا۔ ہر کوئی اس کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔منشیات کی بات کی جائے تو یقیناً انتظامیہ سمیت ہر کسی کو اس بارے بخوبی علم ہے کہ منشیات نہ صرف ہر گھر تک پہنچ چکی ہے بلکہ سکول کے بچوں کو بھی اس کا عادی بنا دیا گیا ہے اگر ابھی بھی ہماری آنکھ نہ کھلی اور انتظامیہ بھی خواب خوگوش کی نیند سوتی رہی تو یقیناً ہماری نسلوں کو تباہی سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔چوری ڈکیتی کی بات کروں تو پچھلے چند ماہ میں کہوٹہ اور گردونواح سے کئی سو موٹرسائیکل غائب ہو گئے۔ زمین نگل گئی یا آسماں کھا گیا۔ صرف چند موٹرسائیکلوں کے سوا باقی کا تاحال کوئی علم نہیں۔انتظامیہ انکا سراغ لگانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آئی۔نہ صرف موٹرسائیکل بلکہ کہوٹہ شہر سے دن دیہاڑے نقاب پوش ڈاکو اسلحہ کی نوک پر دکانداروں کو لوٹ کے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اسکے علاوہ رات کو بھی کہوٹہ اور گردونواح سے کئی دکانوں کے تالے توڑ کر لاکھوں روپے نقدی اور قیمتی سامان لے گئے لیکن پھر بھی انتظامیہ خاموش تماشائی ہی بنی رہی۔چند دن قبل کہوٹہ شہر میں ایک نوجوان کو دن دیہاڑے گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا گیا اور مجرم سربازار فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔اگر رشوت کی بات کروں تو شاید کسی کو میری بات بری لگے مگر بات سچ ہے کون ہے جو رشوت کے بغیر کسی کا کام کرے۔ اگر مٹھی گرم کر کے ہی کام کرنے ہیں تو گورنمنٹ ان ملازمین کو تنخواہ کس کام کی دے رہی ہے۔ جو عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔انکا منشور یہ ہے کی جو رشوت دے گا اسکا کام منٹوں میں ہو گا جو رشوت نہیں دیتا اسکو سالوں سال دفتر کے چکر بھی لگانے پڑتے ہیں اور ذلیل و خوار بھی کیا جاتا ہے۔سمجھ نہیں آتی کہ یہ لوگ اس بات پر کیوں دھیان نہیں دیتے۔ رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جنہمی ہیں لیکن پھر بھی ہر وقت اپنی جیب کے چکر میں ہی رہتے ہیں۔انتظامیہ اور ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ہم سب کو سوچنا ہو گا اور ان تمام جرائم کے خلاف آواز اٹھانا ہو گی اور انتظامیہ کی توجہ بھی اس طرف دلانا ہو گی۔تا کہ ان تمام جرائم پر قابو پایا جا سکے۔ اگر اب بھی ہم اور انتظامیہ سوئے رہے تو یاد رکھیے وہ وقت دور نہیں جب ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہے گا۔کسی نے کیا خوب کہا تھا۔۔۔!
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
وہ عیش دوراں دکھاتا نہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں