74

کھیل کے میدان خالی کیوں؟ اسد محمود جنجوعہ

گزشتہ دنوں میں تین سال بعد اپنے گاؤں پہنچا۔میرے ذہن میں بہت سے خیالات تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ گاؤں کی حالت بدل چکی ہو گی یا ویسے کا ویسا ہی ہو گا جیسے میں چھوڑ کر پردیس پہنچا تھا۔تحصیل گوجرخان کے کونے میں واقع ہمارے گاؤں میں جانے کے لئے مندرہ سے لنک روڈ استعمال کرنا پڑتی ہے۔ جیسے ہی ہم نے مندرہ سے لنک روڈ پر گاڑی موڑی تو روڈ کے درمیان بنے تالاب نے ہمارا استقبال کیا۔ ڈرائیور نے کیچڑ پر سے گاڑی گزاری اور ایک شخص کے چلانے کی آواز آئی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو گندے پانی کے چھینٹے اس شخص کے اوپر پڑ چکے تھے اور وہ چلا رہا تھا۔ ڈرائیور نے گاڑی روکنے کی بجائے دوڑا دی۔یہ وہی تالاب تھا جہاں پر سے ساڑھے تین سال قبل سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور تین سال پہلے موجودہ وزیراعظم نواز شریف گزرے تھے اور انہوں نے اس روڈ کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ خیر ہم اپنے سفر کی جانب رواں دواں تھے اور سات میل کی مسافت کا فاصلہ ہم پچیس منٹ میں طے کر کے اپنے گاؤں میں پہنچ گئے۔ روڈ کی حالت پہلے سے زیادہ بگڑ چکے تھے۔میں سمجھا تھاکہ گاؤں کی حالت بدل چکی ہو گی مگر گاؤں کی حالت ویسے کی ویسی ہی تھی جیسی میں چھوڑ کر گیا تھا۔ نکاسی کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے نالیاں بند ہو چکی تھیں اور ٹیکس دینے والے لوگ بھی نالیاں صاف کر کر کے تھک چکے تھے۔نالیوں کا پانی روڈ پر آنے کی وجہ سے روڈ کم اور گڑھے زیادہ نظر آ رہے تھے۔ میں اپنے گھر پہنچ گیا۔ شام ہو چکی تھے۔ اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ مل کر میں آرام کرنے لگا۔ اگلا دن اتوار کا تھا میں نے سوچا کہ اپنے دوستوں سے صبح سویر کرکٹ گراؤنڈ میں جا کر ملاقات کرنی ہے ۔ اسی سوچ میں نیند نے مجھے گھیرے میں لے لیا اور میں کب سویا مجھے انداز ہ بھی نہیں ہوا۔
صبح سویرے اٹھ کر نمازز پڑھی اور سات بجے میں اپنے گاؤں کے گراؤند میں جا کر پہنچا۔ میں سوچ رہا تھا کہ آج گراؤنڈ میں تمام پرانے دوستوں اور عزیزوں سے ملاقات ہو جائے گی۔میں اسی سوچ میں مگن گراؤنڈ میں جا پہنچا مگر وہاں پر نہ ہی کوئی شخص ادھر موجود تھا اور نہ ہی کوئی کرکٹ کھیل رہا تھا۔میں حیران و پریشان دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میں نے اپنی ساری زندگی جو گاؤں میں گزاری تھی اس وقت کبھی ایسا نہیں ہوا ہو گا کہ اتوار کا دن ہو اور کرکٹ گراؤنڈ میں کوئی بھی نہ آئے۔ میں نے اسی سوچ میں گم ایک دوست کو فون کیا جس کا گھر گراؤنڈ کے نزدیک تھا اور اس سے ملنے اس کے گھر جا کر پہنچا۔حال چال پوچھنے کے بعد میں نیاس سے وجہ پوچھی کہ کیا وجہ ہے کہ اس وقت گراؤنڈ میں کوئی بھی نہیںْ اس نے جو جواب دیا وہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گے۔میرے دوست نے کہا کہ آٹھ مہینے ہو گئے یہ گراؤنڈ خالی ہے اور اس کی وجہ موجودہ دور کے جدید ترین آلات ہیں۔ فیس بک، وٹس ایپ اور فور جی نے لوگوں کو گراؤنڈز سے دور کر دیا ہے۔ جب سے پاکستان میں فور جی کی سروسز سٹارٹ ہوئی ہیں گراؤنڈز مکمل طور پر خالی ہو چکے ہیں اور کوئی بھی نوجوان یا بچہ کرکٹ کھیلنے نہیں آتا۔ اس کے بعد میں نے دوست کے گھر چائے پی اور خدا حافظ کہہ کر اپنے گھر آ پہنچا۔میں گھر آتے ہی پرانی سوچوں میں گم ہو گیا کیونکہ اپنی زندگی کا جتنا بھی عرصہ میں نے ہوش و حواس میں گزارا ہے مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی کسی بڑی وجہ کے بغیر ہم نے کرکٹ نہ کھیلی ہو ۔ ہم چار سال کے ہوتے تھے تو تب بھی روزانہ عصر کی نماز کے بعد کرکٹ کھیلنے جاتے تھے اور مغرب کی اذان ہوتے ہی ہماری واپسی ہو جاتی تھی۔مگر آج کل کے جدید دور نے تمام لوگوں کی زندگی کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ انسان اپنا زیادہ وقت سوشل میڈیا میں گھسا رہتا ہے اور اصلی دنیا میں مزہ لینے کی بجائے سوشل میڈیا کی جھوٹی دنیا میں خود کو مصروف رکھتا ہے۔انسان کو تو اپنے گھر کے پاس رہنے والے کی خبرنہیں ہوتی مگر دنیا بھر کی خبریں اپنے فیس بک پر شےئر کرتا رہتا ہے۔ لوگ اپنے محلے کے لوگوں کو تو بھول چکے ہیں مگر ان کو ہندوستان کی فلموں کے اداکاروں کے نام اور ان کے خاندانوں کے نام تک یاد ہیں۔ ہم لوگ حقیقی دنیا کے بارے میں سوچنے کی بجائے سوشل میڈیاکی دنیا میں رہنا شروع کر چکے ہیں اور پہلے تو پاکستان کے صرف شہر اس لپیٹ میں تھے مگر فور جی کی آمد نے اب اپنا اثر گاؤں میں دکھانا شروع کر دیا ہے۔ آج سے صرف تین سال قبل ہمارے گاؤں میں صرف کالج جانے والے طالب علموں کے پاس موبائل فون ہوتا تھا مگر اب میری نظر جب اپنے گاؤں کے گڑھے میں سے ہٹ کر ایک دم سات سال کے بچے کے ہاتھ میں موجود آئی فون پر پڑتی ہے تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہتی ہیں ۔ اس موبائل کی قربت اور کھیلوں سے دوری نے ڈاکٹروں کی چاندی کر دی ہے۔ پورا پورا دن تمام ہسپتال بیماروں سے بھرے رہتے ہیں اور لوگ پرائیویٹ اداروں میں بھی انتظار کی زحمت اٹھاکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ہماری قوم کی ایک بری عادت ہے۔ جب بھی کوئی نئی چیز آتی ہے تو اس کی لت میں اس طرح سے بری طرح پھنس جاتی ہے کہ اس سے باہر نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہم لوگ دن بدن اسی طرح ہی کے چنگل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ مگر اس پر نہ ہی ہمارے والدین توجہ دے رہے ہیں اور نہ ہی ہمارے اساتذہ کو اس بات کی فکر ہے۔ حالت تو یہ ہے کہ فیس بک پر استاد اور شاگر د ایک دوسرے سے پارٹی اختلافات کی وجہ سے جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ ہم لوگ ہر چیز کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر خود کو اس سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں مگر موجودہ حالت میں ہمارے سات سال کے بچے کے پاس جو موبائل فون ہے اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد نہیں کی جاسکتی ہے۔ ہمیں بچوں سے موبائل فون لے کر کھیلوں کے گراؤنڈز کو بحال کرنا ہو گا ورنہ چالیس سال کی عمر کے لوگ بھی ایس نظر آئیں گے جیسے موجودہ دور کے اسی سال کے بوڑھے نظر آتے ہیں۔۔۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں