ایم سرور صدیقی
قبروں کی حرمت یاخوف اب دلوں سے رخصت ہوگیاہے یہ الگ بات کہ بااثرلوگوں نے مال ِ غنیمت سمجھ کر قبرستانوں پرقبضے کرلئے ہیں شہروں اور دیہاتوں کے درمیان کوئی تمیز نہیں حکومت بھی اس طرف توجہ کرنے سے گریزاں، گریزاں۔۔اکثروبیشتر قبرستانوں میں سارا دن سارا دن بھنگیوں چرسیوں کا آنا جانا لگارہتا ہے یعنی مرنے کے بعد بھی کوئی سکون نہیں۔شہر سے دورقبرستان کے احاطہ میں چندموالی ایک کٹیا میں روزانہ موج میلہ کرتے۔ کبھی کبھارکوئی اپنے کسی پیارے کی قبرپر پانی چھڑکانے کیلئے کہتا تو کوئی نہ کوئی اٹھتا اور لہکتا،جھومتا جھا متا بالٹی ہاتھ میں پکڑے چلا جاتا کچھ ملتا تو سب آپس میں بانٹ کر کھا پی جاتے۔یہ بھی اللہ کی عجب مخلوق ہے زیادہ تر موالی بے ضرر، حسد،کینہ،رقابت سے پاک،حال سے بے حال اور اپنے حال میں مست۔۔ایک دبلا پتلا موالی کما ل کی بھنگ گھوٹتا سب اسے پیارسے چھٹانکی کہا کرتے اس کی ایک بات بڑی عجیب تھی وہ جب بھی ”سردائی“کا پیالہ منہ سے لگاتا بڑی کرک دار آواز میں کہتا
پی پیالہ صبر کا۔کوئی نہیں ساتھی قبرکا
پھر سب پیتے پلاتے آڑے ترچھے ہوکر حالات اور ماحول سے بے خبرہوجاتے جیسے بے کفن استخوانی لاشے ادھر ادھر پڑے ہوئے ہوں۔ چھٹانکی جب بھی پاٹ دار میں کہتا۔
پی پیالہ صبر کا۔کوئی نہیں ساتھی قبرکا ۔ان کی کٹیا کے سامنے ایک چھوٹی سی مسجد کا مولوی کبھی اونچی آواز اور کبھی جھنجھلاکر زیر ِ لب کہتا جھوٹ۔ سفید جھوٹ۔دونوں کی متضاد باتیں،الگ الگ خیالات اورایک دوسرے کی ضد سوچ لیکن ایسی حقیقت کااظہار۔ جس سے انکار ہی ممکن نہیں دنیا میں ہر شخص الیلا آتاہے اپنا کریکٹرادا کرکے اکیلارخصت ہوجاتاہے
آتے ہوئے اذان سنی، جاتے ہوئے نماز
اتنے قلیل وقت میں آئے چلے گئے
یہی ہر جاندارکی اصل کہانی ہے۔پھر بھی اتراتے پھرنا،مارا ماری کرنا، دولت کیلئے خون بہانے سے بھی گریز نہ کرنا،فتنہ،جھوٹ لالچ،فساد،دھوکہ، حسد،کینہ،رقابت اورجھوٹی نمائش انسان کی سرشت میں شامل ہے شاید اسی لئے رب ِ کائنات کو فرشتوں نے انسان کو تخلیق نہ کرنے کا مشور ہ دیا تھا لیکن انسان اپنے خالق کی امیدوں پر پورا اتراہے یا نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہر بچے کی پیدائش اس بات کااعلان ہے کہ اللہ تعالیٰ ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا یہی وجہ ہے اس کی بیکراں رحمت ہمیشہ ٹھاٹھیں مارتی رہتی ہے ہم جیسے دنیا دار اس رحمت سے دور بھاگتے پھرتے ہیں حالانکہ اس کی نعمتوں کی کوئی حد ہے نہ شمار۔وہ ہر وقت مائل بہ کرم۔ہروقت توبہ قبول کرنے والا۔ہر وقت اپنی رحمت میں پناہ دینے والا۔کسی پاپی کو بھی مایوس نہ کرنا اس کی ذات کا وصف ہے۔
کوئی مانگنے والاہو اسے شان ِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے قبروں کی حرمت یاخوف اب دلوں سے رخصت ہوگیاہے بچے سارا سارا دن قبرستانوں میں کھیلتے پھرتے ہیں۔لوگوں نے قبروں پر دکانیں بنارکھی ہیں بڑے بڑے گودام بھی ہر شخص اپنی قبرمیں اکیلا منکرنکیر کے سوالات کو فیس کرتاہے۔کوئی نہیں ساتھی قبرکا یعنی وہاں کوئی مددگار نہیں کوئی دنیاوی دوست، عزیزو اقارب، بیوی بچے، رشتہ داروں کا شہارا نہیں، دنیا کی دولت دنیا میں رہ گئی یہی دنیا کی بے ثباتی کی بے رحم کہانی ہے۔ دبا کر چل دئیے،نہ دعا نہ سلام ذرا سی دیرمیں کیا ہوگیا زمانے کو اس کے برعکس جن لوگوں نے نیک کام کئے، مخلوق ِ خدا کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا،انسانیت کا احترام کیا ان کیلئے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں،انسان کو چھوٹی چھوٹی نیکیاں کرتے رہنا چاہیے ہر رات کو سوتے وقت اگر اپنے آپ سے سوال کیا جائے کہ آج نیکی کا کون سا کام کیا ہے تو فطرتاً اچھے کاموں کی طرف رغبت پیدا ہوجاتی ہے چھوٹی چھوٹی نیکیاں گھپ ٹوپ اندھیرے میں جگنوؤں کی مانند ہوتی ہیں کہ کالی راتوں میں جگنو چمکتے اچھے لگتے ہیں کہتے ہیں جو کام انسانیت کی بھلائی کیلئے کیا جائے تاقیامت اس کااجر ملتا رہتاہے، اپنے آپ میں ہمدردی، اخوت کے جذبات بیدار کرنا، اچھے کام کرتے رہنا،لوگوں سے محبت، خلوص اوراحساس چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہیں جن کی ضرورت انسان کو ہروقت رہتی ہیں ایسی نیکیوں کے بدلے کئی مشکلیں ٹال دیتاہے۔ کسی کی دعا کے طفیل یقینی حادثے سے بندہ ایسے محفوظ رہتاہے کہ خود بھی یقین نہیں آتا۔کئی پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور کئی مشکلیں آسان یہ سب دعاؤں کی وجہ سے ہوتاہے۔ذرا تصورکی آنکھ سے دیکھیں وہ منظر کیا ہوگا جب حشرکے میدان میں سب کو اپنی اینی پڑی ہوگی لوگ پریشان ہمدرد نہ مونس مایوسی،پریشانی، انجانا ان دیکھا خوف،کالی سیاہ رات اور اس عالم میں آپ کے ارد گرد گھپ ٹوپ اندھیرے میں جگنوؤں کی قطاریں جگمگاتی پھرتی ہوں۔کسی کے ساتھ اچھا سلوک، نیکی، اچھائی کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا، احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں ہم ہیں کہ پھر نہیں سوچتے۔مجھے ریٹائرڈ چیف جسٹس خلیل الرحمن خان نے ایک بار کہا جو لوگ اللہ کی راہ میں کوٹھیاں وقف کردیتے ہیں، مفاد ِ عامہ کیلئے خرچ کرتے ہیں دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے عطیات دیتے رہتے ہیں وہ در حقیقت دے نہیں جاتے بلکہ لے جاتے ہیں یہی آخرت کیلئے زاد ِ راہ ہے۔ ڈاکٹرطارق عزیز بھی کیا نستعلیق شخصیت تھے وہ جب بھی ملتے خدمت ِ انسانیت کے حوالہ سے ڈھیروں باتیں اور مثالیں دے کر لوگوں کا شوق و جذبہ ابھارتے رہتے کیونکہ انسانیت کی خدمت میں ہی ا بدی زندگی کا سکون پوشیدہ ہے یہ الگ بات ہے کہ اب خوف ِ خدا ختم ہوتا جاتاہے نفسا نفسی کا عالم ہے ،لوگوں کی اکثریت اپنے لئے سوچتی ہے ہماری زندگی میں ایک حشر بپاہے پھر بھی دنیا نیکی سے خالی نہیں درددل رکھنے والے خال خال ہیں اس کے باوجود اندرایک احساس ہے ایک دن نیکی غالب آجائے گی۔جب کوئی چھٹانکی پاٹ دار میں یہ کہے۔ پی پیالہ صبر کا۔۔کوئی نہیں ساتھی قبرکا ۔تو۔اس کی کٹیا کے سامنے چھوٹی سی مسجد کا مولوی پکار اٹھے جھوٹ۔ سفید جھوٹ۔ قبرکا ساتھی ہے چھوٹی بڑی نیکیاں جو اندھیرے میں جگنوؤں کی طرح چمکتی پھرتی ہیں تو دل کو یقین آجائے گا کہ مولوی صاحب ٹھیک ہی کہتے تھے۔
191