تحریر چوھدری محمد اشفاق
وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کی خصوصی ہدایات پر ایسے طلباء کو بغیر لائنس کے یا میں کوئی جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں اگر وہ موٹر سائیکل چلاتے نظر آئیں تو ان کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کیا جائے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو سٹوڈنٹس ابھی تک اٹھارہ سال کی عمر کو نہیں پہنچے ہیں ان کو موٹر سائیکل چلانے کی اجازت ہر گز نہیں دینی چاہیئے لیکن اس کیلیئے چند ضروری باتوں کو بھی ہر صورت مد نظر رکھنا ہو گا اول تو یہ کہ والدین اپنے بچوں کو بڑی مشکل سے سکول کالج تک بھیج رہے ہوتے ہیں وہ اپنے پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم دلوا رہے ہوتے ہیں جب وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کا بیٹا ماہانہ کرائے کی مد میں پانچ چھ ہزار روپے خرچ کر دیتا ہے تو کیوں نہ اس کو موٹر سائیکل لے کر دے دیا جائے تا کہ پیٹرول بھی کم خرچ ہو سکے اور موٹر سائیکل بھی اپنے پاس رہے گا اسی سوچ کے تحت وہ موٹر سائیکل خرید کر اپنے بچے کو دے دیتے ہیں تا کہ وہ با آسانی سکول و کالج جا سکے لیکن جب وہ سکول و کالج سے ڈگری کے بجائے ہاتھ میں ایف آئی آر لیئے گھر داخل ہو گا تو اس کے والدین کے خواب بلکل چکنا چور ہو جائیں گئے ایک طالب علم جو اس وقت سیکھنے کے مرحلے میں ہے اس کو جب حوالات میں بند کر دیا جائے گا تو وہ کیا سوچے گا یقینان وہ غصے میں طیش میں آ کر جرائم پیشہ بن جائے گا اور بعض طالبعلم بدلے کی بھی ٹھان لیں گئے اس طرح سے ھالات بہت خراب ہو جائیں گئے دوئم پاکستانی قانون کے مطابق اتھارہ سال سے کم عمر کے بچوں پر ایف آئی آر کا اندراج نہیں ہو سکتا ہے ایسا کرنا قانونی ممانعت ہے جبکہ اٹھارہ سال کے بچے پر اگر کسی وجہ سے ایف آئی آر ہو بھی جائے تو اس کو ضمانت کا ھق بھی دیا گیا ہے ہمارے سست اور کمزور نظام کے تحت اگر کسی شخص پر ایف آئی آر ہو جائے تو وہ ساری زندگی اس کے نام کے ساتھ جڑی رہتی ہے اگر وہی ایف آئی آر کسی کم عمر طالبعلم پر ہو جائے گی تو اس کو ساری زندگی کوئی سرکاری نوکری نہیں مل سکتی ہے وہ سرکاری نوکری کیلیئے نا اہل ہو جائے گا اس کو وہ ایف آئی آر خارج کروانے کیلیئے بہت لمبا اور اخراجات واللا مرحلہ طے کرنا پڑے گا جو بظاہر تو آسان لیکن حقیقت میں بہت کٹھن مرحلہ ہوتا ہے کسی عام شخص کی یہ جرآت ہی نہیں ہو سکتی کے وہ اپنے نام سے کیس خراج کروا سکے پنجاب حکومت نے تو حکم نامہ جاری کر دیا ہے پولیس حکم پر عمل درآمد کی پابند ہوتی ہے ان کیلیئے تو دوہرے مزے ہو رہے ہیں کمائی بھی اور کارکردگی بھی دکھائی جا رہی ہے پچاس کو پکڑا ان میں سے کچھ کو چھوڑ دیا کچھ پر ایف آئی آر دے دی یہ سارا کام زیادتی کے زمرے میں آتا ہے طالبعلموں کو مجرم بننے پر مجبور نہ کیا جائے آجکل کے بچے بہت احساس ہوتے ہیں وہ ایک دم سے اپنے زہنوں کو کسی بات پر مرکوز کر لیتے ہیں سٹوڈنٹس کے خلاف کاروائی والا حکمنامہ بہت خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے اس پر نظر ثانی کی سخت ضرورت ہے اس کیلیئے الگ سے کوئی آسان قانون نافذ کیا جائے بچوں کو ٹریفک قوانین پر عمل در آمد کیلیئے سکولوں میں تربیت دی جائے بچوں کے بجاے والدین کیلیئے تھوڑی سختی کا اہتمام کیا جانا ضروری ہے تا کہ وہ اپنے بچوں کو سمجھانے پر مجبور ہو جائیں ملکی حالات پہلے ہی بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں اب طالبعلموں کو تھانوں میں بند کر کے جگ ہنسائی سے بچنے کی کوشش کی جانی چاہیئے ایسے قوانین بناتے وقت یہ سوچ کیوں نہیں کی جاتی ہے کہ اس کے نتائج کیا برآمد ہو ں گئے یہ بات بلکل طے ہے کہ جب کسی پر ایف آئی آر ہو جائے تو اس کی گرفتاری بھی ضروری ہوتی ہے اس طرح جو بچے گرفتار ہوں گئے ان میں سے شریف گھرانوں سے تعلق رکھنے والے تو سدھر جائیں گئے لیکن کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو غلط تربیت کی وجہ سے شرافت کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے ہیں تو وہ بگڑ بھی سکتے ہیں لہذا پنجاب حکومت کو فوری طور پر اپنے اس حکم نامے پر نظر ثانی کرنا ہو گی بصورت دیگر معاملات خراب ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے اور والدین کے خوابوں کو حقیقی تعبیر دینا بھی حکومتوں ہی کی زمہ داری بنتی ہے طالبعلموں پر ایف آئی آر کے قانون کے بجائے دیگر کوئی نظم و ضبط ایسے بنائے جائیں جس سے کم عمر طلباء کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچایا جا سکے
213