213

کم عمر طالبعلموں پر ایف آئی آر کا اندراج

تحریر چوھدری محمد اشفاق
وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کی خصوصی ہدایات پر ایسے طلباء کو بغیر لائنس کے یا میں کوئی جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں اگر وہ موٹر سائیکل چلاتے نظر آئیں تو ان کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کیا جائے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو سٹوڈنٹس ابھی تک اٹھارہ سال کی عمر کو نہیں پہنچے ہیں ان کو موٹر سائیکل چلانے کی اجازت ہر گز نہیں دینی چاہیئے لیکن اس کیلیئے چند ضروری باتوں کو بھی ہر صورت مد نظر رکھنا ہو گا اول تو یہ کہ والدین اپنے بچوں کو بڑی مشکل سے سکول کالج تک بھیج رہے ہوتے ہیں وہ اپنے پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم دلوا رہے ہوتے ہیں جب وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کا بیٹا ماہانہ کرائے کی مد میں پانچ چھ ہزار روپے خرچ کر دیتا ہے تو کیوں نہ اس کو موٹر سائیکل لے کر دے دیا جائے تا کہ پیٹرول بھی کم خرچ ہو سکے اور موٹر سائیکل بھی اپنے پاس رہے گا اسی سوچ کے تحت وہ موٹر سائیکل خرید کر اپنے بچے کو دے دیتے ہیں تا کہ وہ با آسانی سکول و کالج جا سکے لیکن جب وہ سکول و کالج سے ڈگری کے بجائے ہاتھ میں ایف آئی آر لیئے گھر داخل ہو گا تو اس کے والدین کے خواب بلکل چکنا چور ہو جائیں گئے ایک طالب علم جو اس وقت سیکھنے کے مرحلے میں ہے اس کو جب حوالات میں بند کر دیا جائے گا تو وہ کیا سوچے گا یقینان وہ غصے میں طیش میں آ کر جرائم پیشہ بن جائے گا اور بعض طالبعلم بدلے کی بھی ٹھان لیں گئے اس طرح سے ھالات بہت خراب ہو جائیں گئے دوئم پاکستانی قانون کے مطابق اتھارہ سال سے کم عمر کے بچوں پر ایف آئی آر کا اندراج نہیں ہو سکتا ہے ایسا کرنا قانونی ممانعت ہے جبکہ اٹھارہ سال کے بچے پر اگر کسی وجہ سے ایف آئی آر ہو بھی جائے تو اس کو ضمانت کا ھق بھی دیا گیا ہے ہمارے سست اور کمزور نظام کے تحت اگر کسی شخص پر ایف آئی آر ہو جائے تو وہ ساری زندگی اس کے نام کے ساتھ جڑی رہتی ہے اگر وہی ایف آئی آر کسی کم عمر طالبعلم پر ہو جائے گی تو اس کو ساری زندگی کوئی سرکاری نوکری نہیں مل سکتی ہے وہ سرکاری نوکری کیلیئے نا اہل ہو جائے گا اس کو وہ ایف آئی آر خارج کروانے کیلیئے بہت لمبا اور اخراجات واللا مرحلہ طے کرنا پڑے گا جو بظاہر تو آسان لیکن حقیقت میں بہت کٹھن مرحلہ ہوتا ہے کسی عام شخص کی یہ جرآت ہی نہیں ہو سکتی کے وہ اپنے نام سے کیس خراج کروا سکے پنجاب حکومت نے تو حکم نامہ جاری کر دیا ہے پولیس حکم پر عمل درآمد کی پابند ہوتی ہے ان کیلیئے تو دوہرے مزے ہو رہے ہیں کمائی بھی اور کارکردگی بھی دکھائی جا رہی ہے پچاس کو پکڑا ان میں سے کچھ کو چھوڑ دیا کچھ پر ایف آئی آر دے دی یہ سارا کام زیادتی کے زمرے میں آتا ہے طالبعلموں کو مجرم بننے پر مجبور نہ کیا جائے آجکل کے بچے بہت احساس ہوتے ہیں وہ ایک دم سے اپنے زہنوں کو کسی بات پر مرکوز کر لیتے ہیں سٹوڈنٹس کے خلاف کاروائی والا حکمنامہ بہت خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے اس پر نظر ثانی کی سخت ضرورت ہے اس کیلیئے الگ سے کوئی آسان قانون نافذ کیا جائے بچوں کو ٹریفک قوانین پر عمل در آمد کیلیئے سکولوں میں تربیت دی جائے بچوں کے بجاے والدین کیلیئے تھوڑی سختی کا اہتمام کیا جانا ضروری ہے تا کہ وہ اپنے بچوں کو سمجھانے پر مجبور ہو جائیں ملکی حالات پہلے ہی بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں اب طالبعلموں کو تھانوں میں بند کر کے جگ ہنسائی سے بچنے کی کوشش کی جانی چاہیئے ایسے قوانین بناتے وقت یہ سوچ کیوں نہیں کی جاتی ہے کہ اس کے نتائج کیا برآمد ہو ں گئے یہ بات بلکل طے ہے کہ جب کسی پر ایف آئی آر ہو جائے تو اس کی گرفتاری بھی ضروری ہوتی ہے اس طرح جو بچے گرفتار ہوں گئے ان میں سے شریف گھرانوں سے تعلق رکھنے والے تو سدھر جائیں گئے لیکن کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو غلط تربیت کی وجہ سے شرافت کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے ہیں تو وہ بگڑ بھی سکتے ہیں لہذا پنجاب حکومت کو فوری طور پر اپنے اس حکم نامے پر نظر ثانی کرنا ہو گی بصورت دیگر معاملات خراب ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے اور والدین کے خوابوں کو حقیقی تعبیر دینا بھی حکومتوں ہی کی زمہ داری بنتی ہے طالبعلموں پر ایف آئی آر کے قانون کے بجائے دیگر کوئی نظم و ضبط ایسے بنائے جائیں جس سے کم عمر طلباء کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچایا جا سکے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں