111

کلرسیداں کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں/چوہدری محمد اشفاق

کلرسیداں تاریخی شہر ہے 2007 ء میں اس کو کہوٹہ سے الگ تحصیل کا درجہ دیا گیاجو گیارہ یونین کونسلز پر مشتمل ہے جن میں غزن آباد ،بشندوٹ ،گف، درکالی ، معموری، کلر سیداں کنوہا ،چوہا خالصہ ،بھلا کر ،دوبیرن کلاں ، سکوٹ اور نلہ مسلماناں شامل ہیں اس تحصیل کی خوش قسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ نثار علی خان کا حلقہ انتخاب بھی ہے اور اس وجہ سے اب تک اس کو تمام قسم کے مسائل سے چھٹکا را حاصل ہو جا نا چاہیے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ چوہدری نثار علی خان اور قمر السلام راجہ نے بے شمار تر قیاتی کام کر وائے آخری بارجمعرات کے روز بھی کلر سیداں کے لیے کروڑوں کی گرانٹس کا اعلان کیا گیا ہے جن میں گلیاں روڈ اور دیگر ترقیاتی کام شامل ہیں لیکن صرف ترقیاتی کام ہی مسائل کا حل نہیں ہیں تحصیل بننے سے پہلے بھی عوام کو تھانہ کلر سیداں سے بے شمار شکایات تھیں اور آج بھی لوگ وزیر داخلہ کی آمد پر پولیس کے خلاف پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں چوک پنڈوڑی پولیس چوکی عوام کی سہولت کے لیے قائم کی گئی تھی لیکن یہ تجربہ انتہائی ناکام رہا کیوں کہ مذکورہ چوکی پر ٹاؤٹ پوری طرح قبضہ جمائے ہوئے ہیں عام آدمی کا بغیر کسی سفارش کے کام کروانا سوچنا بھی محال ہے ۔عوام کو محکمہ مال سے اس سے پہلے بھی مسائل کا سامنا تھا اور آج بھی وہی مشکلات پیش آرہی ہیں تحصیل بننے سے پہلے بھی ٹریفک کے مسائل کے انبار لگے ہوئے تھے اور آج وارڈن بھی آچکے ہیں ایک عدد لفٹر بھی ان کو مہیا ہو چکا ہے لیکن مسائل پہلے کی طرح موجود ہیں وارڈن پولیس صرف غریب ٹیکسی ڈرائیوروں اور سو زوکی ڈرائیوروں کے چالان کرتے نظر آتے ہیں کسی پجارو اور کار کو نہیں روکتے اس کے علاوہ بھی بہت سے سارے بد انتظامی مسائل موجو د ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی انتہائی اجیرن بنی ہوئی ہے ایم پی اے قمرالسلام راجہ کچھ بہتریوں کے لیے کوشاں تو ہیں مگر کچھ وقت درکار ہے چوہدری نثار علی خان پانچ چھ ماہ بعد کلر سیداں کچھ دیر کے لیے بیٹھ جاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں صحت کے حوالے سے دیکھا جائے تو سرکاری ہسپتالوں میں سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اس وقت جتنی زیادہ مہنگائی چوک پنڈوڑی اور کلر سیداں میں ہے ضلع بھر میں کسی جگہ اتنی مہنگائی نہیں ہے پرائس مجسٹریٹ بس کبھی کبھار نمودار ہوتے ہیں اور چند دو کانداروں کو جرمانے کر کے مہینہ بھر کے لیے غائب ہو جاتے ہیں کیوں کہ انہوں نے محض فرضی کاروائی ڈالنی ہوتی ہے شہر میں صفائی کا نتظام بھی ناقابل اصلاح معلوم ہو تا ہے مین روڈ پر تو ٹی ایم اے کے خاکروب صفائی کرتے نظر آتے ہیں مگر شہر کی گلیاں اور محلوں میں ہر طرف گندگی نظر آتی ہے جس کے زمہ دار دکاندار شہری اور انتظامیہ میں سب ہی ہیں بہت سے مقامات پر تو ریت بجری اور اینٹوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں اس کے علاوہ پارکنگ شہر کا ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے ہر خاص جگہ پر ائیویٹ اور کمرشل گاڑیوں نے قبضہ کر رکھا ہے مقامی انتظامیہ نے عام شہریوں کی پارکنگ پر کبھی دھیان نہیں دیا ہے اور ٹریفک وارڈنز بھی اس سلسلے میں بے بس دکھائی دیتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ شہر میں سٹریٹ لائٹس کا انتظام بھی ناقص ہے ۔تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال سے لے کر مرید چوک تک سڑک میں جگہ جگہ گڑھے پڑ چکے ہیں جن میں پانی کھڑا ہو تا ہے اور پیدل چلنے والوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں ہائی وے ڈیپارٹمنٹ کے بیلدار گڑھوں میں مٹی بھر دیتے ہیں جو چند ہی دنوں میں نکل جاتی ہے اور گڑھے پھر خالی ہوجاتے ہیں تحصیل کلر سیداں اپنی اہمیت کے لحاظ سے اتنی اہم ہے کہ اس وقت ملک کے اہم ترین وزیر داخلہ کا انتخابی حلقہ بھی اسی تحصیل کے ساتھ منسلک ہے اس لحاظ سے اس تحصیل کو یہ رتبہ بھی حاصل ہونا چاہیے تھا کہ اس کا تھانہ غریبوں کے لیے خوف کی علامت نہ ہو تا اس کا محکمہ مال غریب عوام کے لیے مختص ہو چکا ہو تا اس کا THQ ہسپتال ہر سہولت فراہم کر تا یہاں ہر ہفتہ دس دن کے بعد کھلی کچہریاں لگتیں یہاں پر وزارت داخلہ سپیشل احکامات کے تحت سرکاری اداروں پر نظر رکھی جاتی کہ کہیں چوہدری نثار علی خان کو ووٹ دینے والی عوام کے ساتھ کوئی زیادتی تو نہیں ہور رہی ہے لیکن ایسی صورتحال کسی بھی وقت بنتی نظر نہیں آرہی ہے اور یہی لگ رہا ہے کہ تحصیل بننے سے پہلے اور بعد کے حالات میں کوئی فرق دیکھنے کو نہیں ملے گا اور تمام معاملا ت جوں کے توں ہی رہیں گے. .{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں