164

کلرسیداں کے بڑھتے ہوئے مسائل

تحریر چوہدری محمد اشفاق

کلر سیداں بہت پرانا شہرہونے کے وجہ سے تا ریخی شہر بھی کہلاتا ہے 2007سے پہلے یہ تحصیل کہوٹہ کا حصہ ہو ا کرتا تھا 2007میں اس کو الگ تحصیل کا درجہ حاصل ہو گیا یہ تحصیل اسوقت گیارہ یونین کونسلز پر مشتمل ہے جن میں غزن آباد بشندوٹ گف درکالیء شیر شاہی کلر سیداں کنویاچوہا خالصہ بھلا کر دو بیرن کلاں سکوٹ اور نلہ مسلماناں شامل ہیں جبکہ اب چند یو سیز کو ملا کر ایم سی کلرسیداں بھی بنا دی گئی ہے تحصیل کی خوش قسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے اہم ترین ایم این اے صداقت علی عباسی کا حلقہ انتخاب بھی ہے اور اس وجہ سے اب تک اسکو تمام قسم کے مسائل سے چھٹکارا حاصل ہو جانا چاہیے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ صداقت علی عباسی اور ایم پی اے راجہ صغیراحمدنے بے شمارتر قیاتی کام کروائے لیکن صرف ترقیاتی کام ہی مسائل کا حل نہیں ہے تحصیل بننے سے پہلے بھی عوام کو تھانہ کلر سیداں سے بے شمار شکایات تھیں اور آج تحصیل بننے کے بعد بھی عوام پولیس کے خلاف پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں عوام کو محکمہ مال سے اس سے پہلے بھی مسائل کا سامنا تھا اور آج بھی وہی مشکلات پیش آرہی ہیں تحصیل بننے سے پہلے بھی ٹریفک کے مسائل کے انیارلگے ہوئے تھے اور آج وارڈن کی مناسب نفری کی موجودگی میں بھی وہی مسائل موجود ہیں ایک عدد لفئر بھی ان کو فراہم کیا جا چکا ہے لیکن مسائل پہلے کی طرح موجود ہیں اور سڑک کے دونوں اطراف گاڑیاں اسی طرح کھڑی ہوتی ہیں وارڈن والے صرف غریب ٹیکسی ڈرائیوروں اور سوزوکی ڈرائیوں اور خاص کر جو گاڑی کہیں باہر سے آ جائے ان کے چالان کرتے نظر آتے ہیں کسی پجارو اور کار کو نہیں روکتے اس کے علاوہ بھی بہت سے سارے بدانتظامی مسائل موجود ہیں جن کیوجہ سے عام آدمی کی زندگی انتہائی اجیرن بنی ہوئی ہے موجودہ ایم پی اے کچھ بہتریوں کے لیے کوشاں تو ہیں مگرکچھ وقت درکار ہے صداقت علی عباسی چند ماہ بعد بعد کلر سیداں کچھ دیر کے لے بیٹھ جاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں صحت کے حوالے سے دیکھا جائے تو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تحصیل بھر میں قائم بنیادی مراکز صحت میں آج بھی بہت سی سہولتوں کا فقدان پایا جاتا ہے بلخصوص زچہ و بچہ کی صحت کے حوالے سے مسائل موجود ہیں مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اسوقت جتنی زیادہ مہنگائی چوکپنڈوڑی اور کلر سیداں میں ہے ضلع بھر میں کسی جہگہ اتنی مہنگائی نہیں ہے پرائس مجسٹریٹ بس کبھی کبھار نمودار ہوتے ہیں اور چند دوکانداروں کو جرمانے کر کے مہینہ بھر کے لیے غائب ہو جاتے ہیں کیوں کہ اُنہوں نے محض فرضی کاروائی ڈالنی ہوتی ہے اس کے بعد وہ یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ مہنگائی کو انہوں نے کنٹرول کر لیا ہے شہر میں صفائی کا انتظام بھی وقت کے تقاضوں کے عین مطابق نہیں ہے مین روڈپر تو ٹی ایم الے کے زیر انتظام صفائی کمپنی کے خاکروب صفائی کرتے نظر آتے ہیں مگر شہر کی گلیاں اور محلے ہر طرف گندگی نظر آتی ہے جس کے زمہ دار دکاندار شہری اور انتظامیہ سب ہی ہیں بہت سے مقامات پر تو ریت بجری اور اینٹوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں اس کے علاوہ پارکنگ شہر کا ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے ہر خاص جگہ پر ائیویٹ اور کمرشل گاڑیوں نے قبضہ کر رکھا ہے مقامی انتظامیہ نے عام شہریوں کی پارکنگ پر کبھی دھیان نہیں دیا ہے اور ٹریفک وارڈنز بھی اس سلسلے میں بے بس دکھائی دیتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ شہر میں سٹریٹ لائٹس کا انتظام بھی نا قص ہے روات سے لے کر کلرسیداں مرید چوک تک سٹرک میں بہت سی جگہوں پرگڑھے پڑچکے ہیں یا روڈ بیٹھ چکی ہے وہاں پر پانی کھڑا ہوجاتا ہے اور پیدل چلنے والوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں ہائی وے ڈپیارٹمنٹ کے بیلداد گڑھوں میں مٹی بھر دیتے ہیں جو چند ہی دنوں میں نکل جاتی ہے اور گڑھے پھر خالی ہو جاتے ہیں تحصیل کلر سیداں اپنی اہمیت کے لحاظ سے اتنی اہم ہے کہ اسوقت حکمران جماعت کے اہم ترین ایم این اے کاانتحابی حلقہ بھی اسی تحصیل کے ساتھ منسلک ہے اس لحاظ سے اس تحصیل کو یہ رتبہ بھی حاصل ہونا چاہیے تھا کہ اس کا تھانہ غریبوں کے لیے خوف کی علامت نہ ہوتا اس کا محکمہ مال غریب عوام کے لیے مختص ہو چکا ہوتا اس کا THQہسپتال ہر سہولت فراہم کرتا یہاں سے مریض راولپنڈی ریفر نہ ہوتے یہاں ہر ہفتہ دس دن بعدکھلی کچہریاں لگتیں یہاں پر ایم این اے کے احکامات کے تحت سرکاری اداروں پر نظر رکھی جاتی کہ کہیں صداقت علی عباسی اور راجہ صغیر احمد کو ووٹ دینے والی عوام کے ساتھ کوئی زیادتی تو نہیں ہو رہی ہے لیکن ایسی صورتحال کسی بھی وقت بنتی نظر نہیں آرہی ہے اور یہی لگ رہا ہے کہ تحصیل بننے سے پہلے اور بعد کے حالات میں کوئی فرق دیکھنے کو نہیں ملے گا اور تمام معاملات جوں کے توں ہی رہیں گئے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں