145

کلرسیداں روڈ کی کشادگی اور سیاسی جماعتوں کا کردار/قیصراقبال ادریسی

کلرسیداں اندورن شہر روڈ کی تعمیر اور کشادگی سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوگئی ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے اجتماعات میں متعدد بار اس بات پر زور دیا تھاکہ کلرسیداں شہر کی روڈ کو کشادہ کیا جائے گا اور اس کی خوبصورتی کو مد نظر رکھتے ہوے مین چوک میں گول ٹرن کی شکل دی جائے گی ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تحصیل کلرسیداں میں بے شمار ترقیاتی کام کروائے ۔سپورٹس گراؤنڈ کلرسیداں کو واگزار کرانا چوہدری نثار علی خان کا اہم کارنامہ ہے ، اس سے قبل کئی ادوار میں سپورٹس گراؤنڈ قبضہ مافیا سے واگزار نہ ہوسکاء ، چوہدری نثار علی خان نے سپورٹس گراونڈ سے ملحقہ غیر قانونی تجاوزات کو ختم کرایا اور سپورٹس گراونڈ کو اصل حالت میں لا کر کلرسیداں کی عوام کو تحفہ دیا ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب سپورٹس گراؤنڈ کو تجاوزات سے واگزار کرانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس وقت تمام سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے افراد کی جائیدایں بھی تجاوز نکلیں لیکن چوہدری نثار علی خان نے کسی کو خاطر میں نہ لاکر اپنے اصولی فیصلے پر قائم رہتے ہوے تجاوزات کے خلاف بلا امتیاز آپریشن کا حکم دے دیا ۔دوسری طرف کلرسیداں تا روات دو رویہ سٹرک کی تعمیر کے دوران چوک پنڈوڑی اور شاہ باغ اندورن میں دکانوں کو گرا کر ڈبل روڈ تعمیر کی گئی اور تاجروں کو معاوضے دیے گئے ۔ اب چوک پنڈوڑی اور شاہ باغ میں ڈبل روڈ کی وجہ سے ان کی خوبصورتی میں اضافے کے ساتھ ساتھ تاجروں کے کاروبار میں بھی اضافہ ہوا ہے ، سب سے بڑی بات ٹریفک کے مسائل میں بھی واضع کمی ہوئی ہے ،لیکن کلرسیداں اندرون شہر میں روڈ کو ڈبل اور کشادہ نہ کرنا سمجھ سے بالا تر ہے ، گزشتہ چند روز قبل کلرسیداں کی مقامی فلاحی تنظیم کلریوتھ کونسل کے عہدے داروں نے پریس کانفرنس کی اور اس بات پر زور دیا کہ اندرون شہر روڈ کو دورویہ کیا جائے ، کلریوتھ کونسل کے عہدے داروں نے کہا کہ ندرون شہر کو دو رویہ کرنے کی بجائے محکمہ ہائی وے موجود سڑک کی ہی اکھاڑ بچھاڑ کر کے وفاقی وزیر کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے کلر سیداں میں بعض سیاستدان اور کاروباری حلقے کرپشن،بے حسی اور مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کر کے مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کے اعلان کے باوجود شاہراہ کشادہ ہو رہی ہے نہ ہی دو رویہ جبکہ روڈ کے اطراف میں تجاوزات مافیا بھی اپنی اپنی جگہوں پر قائم ہے جن کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔انہوں نے کہا کہ محکمہ ہائی وے اور محکمہ جنگلات سڑک کے اطراف میں لگے درختوں کو نمبرنگ اور ٹینڈرنگ کے بغیر کاٹ کر انہیں مبینہ طور پر غائب کر رہا ہے۔محکمہ ہائی وے کو چاہئے کہ وہ 66 فٹ چوڑی سڑک جو محکمہ ہائی وے کی سرکاری ملکیت ہے کو فوری طور پر واگزار کروا کر اس کی تعمیر شروع کرے۔اب شنید ہے کہ یہ مطالبہ زور پکڑجاے گا کہ کلرسیداں کی اندرون روڈ کو ڈبل کیا جائے ، چند لوگوں کی خاطر کلرسیداں کے مستقبل کو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا ، کلرسیداں کی عوام اس حق میں ہے کہ روڈ کو نہ صرف ڈبل کیا جائے بلکہ اس پر قائم ناجائز تجاوزات کو بھی اسے طرح ختم کیا جائے جیسے سپورٹس گراؤنڈ سے ملحقہ تجاوزات کو ختم کیا گیا تھا ، کلریوتھ کونسل نے باضابطہ عوامی سروے کرنا شروع کردیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کلرسیداں کی عوام چاہتی ہے کہ روڈ کو ڈبل کیا جائے اور غیر قانونی تجاوزات کو ختم کرکے روڈ کو کشادہ کیا جائے اگر یہ ممکن نہ ہوسکا تو آنے والے دور میں یہاں پیدل چلنا بھی محال ہوجائے گا ۔ اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اگر روڈ کی سائیڈ پر ایک موٹر سائیکل بھی کھڑا ہوجائے تو روڈ بلاک ہوجاتی ہے اگر گاڑی کھڑی ہوجائے تو روڈ بند ہوجاتی ہے ۔ چند مقامی سیاسی افراد کو بچانے کے لیے پورے کلرسیداں کے عوام کے جذبات کو روندنا کہیں کا انصاف نہیں ۔کلرسیداں اندرون شہر روڈ کی کشادگی پر تمام سیاسی جماعتین مصلحتوں کا شکار نظر آتی ہیں ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اس معاملے میں بات کرنے کو تیار نہیں اس کی بڑی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ تمام جماعتوں کے اندرون خانہ معاملات سانجھے ہیں ، بظاہر تو یہ آپس میں مخالف نظر آتے ہیں لیکن کوئی اہم سیاسی مسلہ ہو یا کاروباری اس میں صرف اپنا مفاد دیکھا جاتا ہے نہ کہ عوام کا ۔ روڈ کی کشادگی میں کون لوگ رکاوٹ ہیں ان کے کیا مفادات ہیں ، کن لوگوں کی جائیدادیں روڈ پر ہیں سب اچھی طرح جانتے ہیں ۔اگر ان چند بااثر لوگوں کی خاطر روڈ کو دورویہ نہ کیا گیا تو آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اب ہمیں سوچنا ہو گا کہ اب سیاست کو بچایا جائے یا عوامی توقعات پر پورا اترا جائے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اکثریتی عوام کی رائے کا احترام کیا جاے یا صرف چند سیاسی لوگوں کو جو ہمیشہ عوام کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرتے آئے ہیں اور عوام ان کی باتوں میں آکر ہمیشہ استعمال ہوتی رہی ہے ۔ اب سوچنا ہوگا ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں