کلرسیداں انتظامیہ سبزی فروشوں کیلئے وبال جان 145

کلرسیداں انتظامیہ سبزی فروشوں کیلئے وبال جان

کلر سیداں اور ارد گرد کے دیہات میں بہت سارے چھوٹے کاشتکار ہیں جو اپنی تھوڑی بہت زمین میں سبزی کاشت کرتے ہیں اور ہفتے میں ایک بار کلر سیداں منڈی میں لاکر فروخت کرتے تھے لیکن کچھ عرصہ قبل منڈی ختم کردی گئی اور ان لوگوں کے مسائل شروع ہوگئے اب وہ لوگ اپنی سبزی لاتے ہیں اور نالہ کانسی کے پل کے ساتھ ارد گرد بنی عمارات کے ساتھ بیٹھ کر اپنا سامان فروخت کرتے ہیں۔یہ جگہ بلکل سائیڈ پہ ہے یعنی نہ تو ان کے بیٹھنے سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے اور نہ ہی اس جگہ کو تجاوزات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔دوسری بات یہ جگہ پبلک پراپرٹی ہے۔ جب کہ وہاں پہ مین سڑک کے کنارے کچھ لوگوں نے چھپر نما دکانیں بنا رکھی ہیں۔اب ہوتا یہ ہے کہ ٹی ایم او ملازمین وہاں آتے ہیں اور جو لوگ ہفتے میں ایک بار وہاں آتے ہیں ان کو چن چن کر جرمانہ کرتے ہیں اور ان کا وزن تولنے والا ترازو لے کر چلے جاتے ہیں۔گزشتہ روز حاجی ابرار حسین سرپرست اعلی الخدمت فانڈیشن کلر سیداں عبدالودودعامر صدر جے آئی یوتھ کلرسیداں اور سئینر صحافی اکرام الحق قریشی، عبدالعزیزپاشا نے لوگوں کی شکایات کے پیش نظر وہاں گئے اور وہاں جو صورتحال نظر آئی وہ کچھ یوں ہے۔ اس دوران ٹی ایم او ملازمین اور پی ٹی آئی کے ایک مقامی راہنما بھی وہاں موجود تھے۔جو لوگ وہاں ہفتے میں ایک بار آتے ہیں ان کے بقول وہ تجاوزات پہ نہیں بیٹھے ہوئے اور ان کو محض اس لیے تنگ کیا جارہا ہے کہ ان لوگوں کو فایدہ دیا جاسکے جو مستقل وہاں بیٹھے ہیں۔ جب کہ ٹی ایم او ملازمین اور پی ٹی آئی کے دوست کا موقف یہ تھا چونکہ منڈی ختم کردی گئی ہے اس لیے اب یہ لوگ کہیں بھی بیٹھیں وہ تجاوزات میں شمار ہوگا اس لیے ان کے خلاف آپریشن کیا جارہا ہے۔۔جب ہم نے لب سڑک بیٹھے ہوئے لوگوں کے بارے میں استفسار کیا تو ان کا موقف یہ تھا کہ ان لوگوں کو باقاعدہ لائسنس جاری کیے گئے اور سستا بازار منظور کیا گیا ہے۔ اور وہ پچیس تیس لوگ وہاں بیٹھ سکتے ہیں اب ہمارا سوال یہ ہے یہ سستا بازار بالکل لب سڑک کون سے طریقہ کار کے تحت لگایا گیا ہے۔ اور اس کو شروع کرنے سے پہلے لائسنس حاصل کرنے کا طریقہ کار کیا تھا۔ کیا کسی اخبار میں اشتہار کیا گیا یہ کسی اور معروف طریقے سے اس کی تشہیر کی گئی کہ جو لوگ لائسنس لینا چاہیں وہ آجائیں اور اس حوالے سے پہلی ترجیح کیا تھی کہ کن لوگوں کو لائسنس دینا ہے۔دوسرا سوال یہ ہے کہ جو لوگ ہفتے میں ایک بار آکر وہاں اپنا سامان فروخت کرتے تھے ان کو متبادل جگہ کیوں نہیں فراہم کی جارہی ہے وہ سالہا سال سے اس روٹین پہ عمل پیرا ہیں ان کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا اور پھر جس جگہ ان کو جرمانے کیے گئے وہاں بے شمار گاڑیاں کھڑی ہیں اور کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی کیاوہ تجاوزات میں نہیں آتے دیکھیں قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے آپ کچھ لوگوں کو ٹارگٹ کریں اور کچھ کو استثنی دے دیں تو یہ چیز غلط ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ ان میں سے کوئی آپ کا رشتہ دار نہیں ہے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ آدھے لوگ ہی کیوں اور اب ہمارا مطالبہ ہے کہ وہاں اس حوالے سے ٹھوس لائحہ عمل بنایا جائے اور تب تک ان لوگوں کو وہاں بیٹھنے دیا جائے جب تک کوئی متبادل جگہ فراہم نہیں کی جاتی بصورت دیگر جماعت اسلامی یوتھ ونگ ان کی پشت پہ کھڑی ہے اور ہمیشہ مظلوم کی پشت پناہی کریں گے اور اگر یہی روش جاری رکھی گئی تو آئندہ وہاں جے آئی یوتھ بھرپور مظاہرہ کرے گی اور ان شااللہ ان مظلوم لوگوں کو ان کے حقوق دلوا کر رہے گی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں