کرنل اجمل صابر اور غلام سرور خان میں اختلافات برقرار

گذشتہ ہفتے سے کچھ صحافتی حلقوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دو راہنماؤں کرنل اجمل صابر راجہ اور سابق وفاقی وزیر غلام سرور خان کے درمیان ناراضگی ختم ہو چکی ہے اور دونوں نے ہاتھ ملا لیا ہے ان خبروں کے پھیلاؤ کے بعد دونوں گروپوں سے وابستہ کارکنان بھی گومگو کی کیفیت سے دوچار ہونا شروع ہو گئے ہیں عام کارکنان جنہیں تنظیم سازی میں نظر انداز کیا گیا وہ بھی ان خبروں سے پریشانی میں چلے گئے ان حالات میں کرنل اجمل صابر صابر راجہ نے کارکنان کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں عمران خان کی لانگ مارچ کی کال میں سب کارکنا ن صف اول میں ہوں گے جہاں تک ناراضگی اور ہاتھ ملانے کا تعلق ہے تو ایسا کوئی عمل نہیں ہوا اور نہ ہی اب تک اس سلسلے میں اکٹھے بیٹھے ہیں ضلع راولپنڈی کی تنظیم سازی میں بھی کرنل اجمل صابر راجہ اور ان کے کسی بھی ساتھی سے کوئی مشاورت نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی کارکن کو کسی محفل میں آنے کی دعوت دی گئی جس کا از خود پارٹی قائد عمران خان نے نوٹس لیا اور کرنل اجمل صابر راجہ اور ان کے ساتھیوں کو بلایا جہا ں عمران خان کو واضع بتایا گیا کہ راولپنڈی کی تنظیم بنانے میں کسی سے کوئی مشاورت نہیں گئی یہاں تک کہ یونین کونسل کی سطح تک بھی پارٹی کو علامتی نام بھیجے گئے جن میں سے کئی لوگ نوٹیفیکشن جاری ہونے کے بعد اس عمل سے لا تعلقی کا اظہار کر کے استعفے دے رہے ہیں کنٹونمنٹ بوڑد کے الیکشن کی ناکامی سمیت دیگر ناکامیوں کی وجہ بھی اراکین اسمبلی کی گروپ بندیوں کو قرار دیا جس پر عمران خان نے راولپنڈی میں انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی تجویز دی جس پر کرنل اجمل صابر راجہ اور ان کے ساتھیوں نے خوشی کا اظہار کیا تاہم عمران خان کی جانب سے فی الحال اس تجویز کو لانگ مارچ کی وجہ سے تجویز تک ہی محدود رکھا گیا کرنل اجمل صابر راجہ کے گروپ کے لوگوں نے واضح کیا کہ وہ لوگ جتنا بھی کام کر رہے وہ بغیر کسی لالچ کے صرف اور صرف عمران خان اور پارٹی کے لئے بنا کسی عہدے کی لالچ کے کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے سیاسی پارٹیوں کے اندر اختلافات ہوتے رہتے ہیں انھیں پارٹیوں کے اندر کے لوگ ہی ختم بھی کرواتے ہیں کرنل اجمل صابر راجہ اور جناب غلام سرور خان کے اختلافات کی بھی یہی نوعیت ہے جو کافی وقت سے چل رہے ہیں پارٹی کے مختلف لوگ پہلے بھی ان اختلافات کو ختم کروانے کو شش کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی حتمی ایسی بات نہیں ہوئی جس پر یہ دعویٰ کیا جائے کہ دونوں راہنماؤں نے ہاتھ ملا لیا ہے دونوں راہنماؤ ں سے وابستہ کارکنوں کے جذبات متاثرہوتے ہیں اور اصل حقائق سامنے آنے پر خبر دینے والے صحافی کی ساکھ بھی خراب ہوتی ہے لہٰذا ایسے صحافیوں سے گذارش ہے کہ کوئی بھی تحریر لکھنے سے قبل متعلقہ راہنمأوں یا ان کے نمائندوں سے رابطہ کر کے اصل حقائق عوام تک پہنچایا کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں