205

کاروبار کی آڑ میں گداگری کا دھندہ بہترین بزنس

بڑی عیدکی آمد اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث گداگروں نے بھی بھیک مانگنے کے نئے نرخ مقرر کرلیے ہیں، سکے کی جگہ کرنسی نوٹ کا مطالبہ کیا جا نے لگا، گداگری ایکٹ کے باوجود پولیس شہر سے یہ لعنت ختم کرنے میں ناکام، ہر طرف بھکاریوں کے جتھے دکھائی دینے لگے، گنجان آباد علاقے بھکاریوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ بن گئے۔ بھیک مانگنے والوں کے درجنوں سے زائد گروہ اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں میں متحرک دکھائی دیتے ہیں،متعددبھکاری عورتوں نے زیادہ بھیک لینے کے لیے معصوم بچے اٹھا رکھے ہیں، گھروں اور دکانوں میں گھس کر قیمتی چیزیں چوری کرنے والے بعض جرائم پیشہ عورتوں نے بھی بھکارنوں کا روپ دھار رکھا ہے۔تمام گداگر کالونیوں کی طرح جھگیاں بناکر اکٹھے رہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہر سال عید کے دنوں کے دوران بھکاریوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے جو پولیس انتظامیہ کی غفلت اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی بھکاریوں کی بہت بڑی تعداد شہر میں پھیلنا شروع ہوگئی ہے، یوں تو عام دنوں میں بھی گلی محلوں سمیت ہر چوک چوراہے میں گداگر بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں بالخصوص عید کے دنوں میں ان بھکاریوں کی تعداد دوگناسے بھی بڑھ جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پیشہ ور گداگروں نے باقاعدہ نیٹ ورک قائم کررکھے ہیں جس کے نتیجے میں بھکاریوں کی مختلف ٹولیوں نے شہر کے مختلف علاقوں کو آپس میں بانٹ رکھا ہے ہر گروہ مقررہ مدت تک اپنے علاقے میں ہی رہتے ہوئے لوگوں سے بھیک اکٹھی کرتے دکھائی دیتے ہیں، کوئی دوسرا بھکاری ان کے علاقے میں گھس کر بھیک مانگنے کی جسارت نہیں کرتا۔تمام گداگر کالونیوں کی طرح جھگیاں بناکر اکٹھے رہتے ہیں، اس طرح لنگڑے، لْولے اور نابینا بھیک مانگنے والوں میں شامل ہیں چلنے پھرنے سے قاصر افراد ریڑھی یا بیساکھیوں کے سہارے بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں، شہریوں نے ڈی پی او جہلم سے مطالبہ کیا ہے کہ اندرون شہر اور بازاروں میں بھیک مانگنے والے جتھوں کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ خواتین، شہری باعزت طریقے سے خریداری کر سکیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں