راولپنڈی کے مضافاتی علاقوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی طرف پیش قدمی جاری رکھی جب کہ ہمارے علاقے چک بیلی خان نے تنزلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں
ہمارے زمانہ طالب علمی میں جب چک بیلی سے ویگن سروس کا آغاز ہوا تو سروس لاجواب تھی فورڈ ویگنز چلتی تھیں اور نان اسٹاپ تھیں
پنڈی سے بیٹھ کر مسافر چک بیلی تک آرام اور سکون سے سفر کرتے تھے اس کے بعد ٹویوٹاہائی ایس آئی تب سفر زیادہ شاندار ہوگیا لیکن کچھ عرصہ بعد چک بیلی خان کے سائنسدان نما ٹرانسپورٹرز نے ٹاپہ جیسی انمول اور انوکھی سہولت دریافت کی
ڈرائیور کے عقب میں اس سیٹ کو متعارف کروانے والے حضرات کا نام تاریخ ٹرانسپورٹ میں جلی حروف میں لکھا جانا چاہئے اس اضافی سیٹ پر چار مزید سواریوں کی گنجائش پیدا فرما کر ٹویوٹا کمپنی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا گیااس گاڑی کو بنانے والے بھی چک بیلی والوں کی اس ایجاد پر اش اش کر اٹھے
اس سیٹ پر لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا جانے لگالیکن اپنے علاقے کے لوگوں کی عظمت کو سلام مجال ہے کسی نے آواز اٹھائی ہو کسی بندہ بشر نے اس ٹاپہ سیٹ پر بیٹھنے سے انکار کیا ہو ہمارے اس علاقے کے مکین ظلم سہنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے اس صبر کا نتیجہ یہ ہے
کہ اب ایک گھنٹے کا سفر دو گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور سفر اتنا شاندار کہ میرے پاس اسکی منظر کشی کو الفاظ نہیں اس ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور و کنڈکٹر حضرات بہت ہماری سوچ سے بھی بہت آگے ہیں
لوگوں کو ویگن میں بہت ہی مہارت سیایڈجسٹ کرتے ہیں۔جب جی میں آتا ہے مسافر کی سیٹ بدل دیتے ہیں انکی کوشش ہوتی ہے جو کرایہ ادا کر چکا
وہ اتر جا? اور اسکی جگہ کوئی نیا مسافر سوار ہو جائے راقم کو گزشتہ روز چیک بیلی سے پنڈی آنا تھا اس لیے اس سواری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔پیال تک پہنچتے ہوئے
میری چار بار سیٹ تبدیل کی گئی بلکہ ایک مرتبہ گاڑی کی دم پر لٹک کر سفر کا مزہ دوبالا کرنے کی قیمتیں پیشکش بھی ہوئی لیکن میں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ جناب میرا تجربہ صرف لکی ایرانی سرکس دیکھنے کی حد تک ہے کبھی اس میں کام کرنے کا موقع نہیں ملا
۔روات پہنچ کر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا میں نے سیٹ کی تبدیلی کی بجاے اپنی سیٹ سے استعفی دے کر راہ فرار اختیار کی وہ اس لئے کہ گاڑی میں موجود کوئی ایک بھی انسان منصب انسانیت کے عظیم مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود اپنے بنیادی حقوق سے نا بلد تھا
تمام مسافر حضرات صابر اور شاکر تھے میرے زیادہ احتجاج پر ڈرائیور اور کنڈکٹر کی طرف سے مجھے مکوں اور گھونسوں سے بھی نوازا جا سکتا تھا جس کی مجھ نا تواں میں سکت نہ تھی خیر قصہ مختصر جب سے بس سروس ختم ہوئی ہے تمام گاڑ یاں لوکل چل رہی ہیں مسافر بیچارے ذلیل ہو رہے ہیں
چک بیلی کے لوگوں سے میں صرف ایک بات کہنے کی جسارت کروں گا کہ ابھی آپ لوگ مزید چپ رہیں خاموشی سے ظلم سہتے جائیں وہ وقت دور نہیں جب آپ لوگوں کو کنڈکٹر کے ساتھ ایک اضافی شخص لتر مارنے والا بھی بھرتی کیا جائے گا فی سواری 200 روپے سے بھی زیادہ کرایہ اضافی دو لتر۔میری بات تلخ لگے
تو معاف کرنا لیکن یہ حقیقت ہے کرایہ نامہ کسی کے پاس موجود نہیں ہے علاقے کے تمام با اثر افراد کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں انھیں یہ ظلم کیسے نظر آئے؟اس پر ستم یہ کہ ٹرانسپورٹر حضرات کا تعلق بھی اپنے علاقیکیلوگوں سے ہے کوئی کیوں کسی کی خاطر ان سے تعلقات خراب کرے۔
بہترین روڈ ہونے کے باوجود بد ترین ٹرانسپورٹ لمحہ فکریہ ہے کاش ان سطور کو پڑھنے کے بعد یہ مسئلہ ترجیح بنیادوں پر حل ہوجائے یہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے ایک کوسٹر سروس حالات کی شدید متقاضی ہے آپ اس ایک سروس سے لاکھوں لوگوں کی دعائیں لے سکتے ہیں
اس کوسٹر سروس کا روٹ ڈھڈیال تا فیض آباد براستہ چک بیلی خان ہونا چاہئےکوسٹر کا وقت اور سٹاپ مقرر ہو اس پر سختی سے عمل درآمد ہو گاڑیاں وقت پر چلیں اور سٹاپ کے علاوہ کہیں نہ رکیں
ساتھ ہی مسافروں کے کھڑا ہوکر اور لٹک کر سفر کرنے پر سختی سے پابندی ہو اس سے دو اضلاع یعنی پنڈی اور چکوال کے شہری بیک وقت مستفید ہونگے میں ارباب اختیار سے پر زور التماس کرتا ہوں
کہ خدا راہ میری اس تجویز پر غور فرمائیں اور ہمارے علاقے کے مظلوم مسافروں پر رحم کھائیں