156

ڈھڈیال تا فیض آباد بس سروس کی ضرورت

راولپنڈی کے مضافاتی علاقوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی طرف پیش قدمی جاری رکھی جب کہ ہمارے علاقے چک بیلی خان نے تنزلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں

ہمارے زمانہ طالب علمی میں جب چک بیلی سے ویگن سروس کا آغاز ہوا تو سروس لاجواب تھی فورڈ ویگنز چلتی تھیں اور نان اسٹاپ تھیں

پنڈی سے بیٹھ کر مسافر چک بیلی تک آرام اور سکون سے سفر کرتے تھے اس کے بعد ٹویوٹاہائی ایس آئی تب سفر زیادہ شاندار ہوگیا لیکن کچھ عرصہ بعد چک بیلی خان کے سائنسدان نما ٹرانسپورٹرز نے ٹاپہ جیسی انمول اور انوکھی سہولت دریافت کی

ڈرائیور کے عقب میں اس سیٹ کو متعارف کروانے والے حضرات کا نام تاریخ ٹرانسپورٹ میں جلی حروف میں لکھا جانا چاہئے اس اضافی سیٹ پر چار مزید سواریوں کی گنجائش پیدا فرما کر ٹویوٹا کمپنی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا گیااس گاڑی کو بنانے والے بھی چک بیلی والوں کی اس ایجاد پر اش اش کر اٹھے

اس سیٹ پر لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا جانے لگالیکن اپنے علاقے کے لوگوں کی عظمت کو سلام مجال ہے کسی نے آواز اٹھائی ہو کسی بندہ بشر نے اس ٹاپہ سیٹ پر بیٹھنے سے انکار کیا ہو ہمارے اس علاقے کے مکین ظلم سہنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے اس صبر کا نتیجہ یہ ہے

کہ اب ایک گھنٹے کا سفر دو گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور سفر اتنا شاندار کہ میرے پاس اسکی منظر کشی کو الفاظ نہیں اس ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور و کنڈکٹر حضرات بہت ہماری سوچ سے بھی بہت آگے ہیں

لوگوں کو ویگن میں بہت ہی مہارت سیایڈجسٹ کرتے ہیں۔جب جی میں آتا ہے مسافر کی سیٹ بدل دیتے ہیں انکی کوشش ہوتی ہے جو کرایہ ادا کر چکا

وہ اتر جا? اور اسکی جگہ کوئی نیا مسافر سوار ہو جائے راقم کو گزشتہ روز چیک بیلی سے پنڈی آنا تھا اس لیے اس سواری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔پیال تک پہنچتے ہوئے

میری چار بار سیٹ تبدیل کی گئی بلکہ ایک مرتبہ گاڑی کی دم پر لٹک کر سفر کا مزہ دوبالا کرنے کی قیمتیں پیشکش بھی ہوئی لیکن میں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ جناب میرا تجربہ صرف لکی ایرانی سرکس دیکھنے کی حد تک ہے کبھی اس میں کام کرنے کا موقع نہیں ملا

۔روات پہنچ کر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا میں نے سیٹ کی تبدیلی کی بجاے اپنی سیٹ سے استعفی دے کر راہ فرار اختیار کی وہ اس لئے کہ گاڑی میں موجود کوئی ایک بھی انسان منصب انسانیت کے عظیم مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود اپنے بنیادی حقوق سے نا بلد تھا

تمام مسافر حضرات صابر اور شاکر تھے میرے زیادہ احتجاج پر ڈرائیور اور کنڈکٹر کی طرف سے مجھے مکوں اور گھونسوں سے بھی نوازا جا سکتا تھا جس کی مجھ نا تواں میں سکت نہ تھی خیر قصہ مختصر جب سے بس سروس ختم ہوئی ہے تمام گاڑ یاں لوکل چل رہی ہیں مسافر بیچارے ذلیل ہو رہے ہیں

چک بیلی کے لوگوں سے میں صرف ایک بات کہنے کی جسارت کروں گا کہ ابھی آپ لوگ مزید چپ رہیں خاموشی سے ظلم سہتے جائیں وہ وقت دور نہیں جب آپ لوگوں کو کنڈکٹر کے ساتھ ایک اضافی شخص لتر مارنے والا بھی بھرتی کیا جائے گا فی سواری 200 روپے سے بھی زیادہ کرایہ اضافی دو لتر۔میری بات تلخ لگے

تو معاف کرنا لیکن یہ حقیقت ہے کرایہ نامہ کسی کے پاس موجود نہیں ہے علاقے کے تمام با اثر افراد کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں انھیں یہ ظلم کیسے نظر آئے؟اس پر ستم یہ کہ ٹرانسپورٹر حضرات کا تعلق بھی اپنے علاقیکیلوگوں سے ہے کوئی کیوں کسی کی خاطر ان سے تعلقات خراب کرے۔

بہترین روڈ ہونے کے باوجود بد ترین ٹرانسپورٹ لمحہ فکریہ ہے کاش ان سطور کو پڑھنے کے بعد یہ مسئلہ ترجیح بنیادوں پر حل ہوجائے یہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے ایک کوسٹر سروس حالات کی شدید متقاضی ہے آپ اس ایک سروس سے لاکھوں لوگوں کی دعائیں لے سکتے ہیں

اس کوسٹر سروس کا روٹ ڈھڈیال تا فیض آباد براستہ چک بیلی خان ہونا چاہئےکوسٹر کا وقت اور سٹاپ مقرر ہو اس پر سختی سے عمل درآمد ہو گاڑیاں وقت پر چلیں اور سٹاپ کے علاوہ کہیں نہ رکیں

ساتھ ہی مسافروں کے کھڑا ہوکر اور لٹک کر سفر کرنے پر سختی سے پابندی ہو اس سے دو اضلاع یعنی پنڈی اور چکوال کے شہری بیک وقت مستفید ہونگے میں ارباب اختیار سے پر زور التماس کرتا ہوں

کہ خدا راہ میری اس تجویز پر غور فرمائیں اور ہمارے علاقے کے مظلوم مسافروں پر رحم کھائیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں