انٹرویو :شہزاد رضا
پچھلے دنوں اس علاقے کے نوجوان مدرس کے ساتھ مل بیٹھنے کا اتفاق ہوا اور اتفاق ایسا کہ وہ نشست تقریبا تین گھنٹے سے زائد جاری رہی دراصل اس کی بھی ایک وجہ تھی اتفاق کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ میں گیا ان سے ملنے نہیں تھا مگر میری قسمت کا ستارہ مجھے اس شخصیت سے ملوانے لے ہی گیا جو نشست دس سے پندرہ منٹ کی ہونا تھی وقت بڑھتا بڑھتا تین گھنٹے سے زیادہ کا گزر گیا جس شخصیت کے ساتھ میری نشست جاری تھی وہ تھا تو سویلین مگر وہ ڈسپلن کی وجہ سے ہی مشہور تھاخیر تعارف کی جانب بڑھتے ہیں علاقے میں سر مطلوب منہاس کے نام سے جانی پہچانی شخصیت کی میں بات کر رہا ہوں مطلوب مہناس کا کیرئیر سارے کا سارا پرائیویٹ سیکٹر میں گزرا ہے انہوں نے بطور ٹیچر اپنے کیرئیر کا آغاز ساگری میں واقع ایک مشہور پرائیویٹ تعلیمی ادارے سے کیا انہوں نے بتایا کہ ان کی بطور ٹیچر جوائننگ کے چند ماہ بعد ہی ان کو ادارے کا پرنسپل بنا دیا گیا تھا اور اس وقت ان کی عمر بائیس سال تھی انہوں نے بتایا کہ جب میں نے ادارے کا چارج پرنسپل کے طور سنبھالا تو ادارہ تو چل رہا تھا مگر ڈسپلن کے بغیر ۔میں نے جب پرنسپل کا چارج سنبھالا تھا تو ادارے کے آنرکو یہ بات اسی وقت کہہ دی تھی کہ سکول کے اندر ایک پتا بھی میری مرضی کے بغیر نہیں حرکت کر سکتا اور ٹھیک سال بعد میں آپکو جوابدہ ہوں گا تقریبا چار سال بعد میں اس ادارے کو خیر آباد کہہ کہ آگیا اور روات شہر میں اپنا ادراہ قائم کیااور پچھلے پندرہ سال سے یہاں سکول چلا رہا ہوں اس دوران انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ سکول میں ایک بچہ ایسا تھا جو ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتا تھا اور وہ روز نئی نئی لگژری گاڑیوں میں آتا کچھ دن برداشت کیا ایک دن بچے کو پاس بلا لیا اور جب اس کی جیب سے 15ہزار روپے برآمد ہوئے تو ذرا اپنی جیب کی طرف بھی خیال گیا اور مجھے ٹھیک سے یاد ہے کہ میری جیب میں اس دن 60روپے پڑے ہوئے تھے میں نے اس بچے کو ان پندرہ ہزار میں 500کے قریب پیسے دئیے اور کہا کہ کل اپنے والدین کو ساتھ لے کر آنا اور ساتھ یہ بھی کہا روز روز گاڑی بدل کے نہ آیا کرو ایک ہی گاڑی رکھو کیونکہ تم یہاں نمودو نمائش یا دوسرے بچوں کو نیچہ دکھانے کے لیے نہیں بلکہ علم حاصل کرنے آتے ہو ۔جب دوسرے دن وہ بچہ اپنے والدین کے ساتھ آیا تو اس کے والدین کہنے لگے آپ کون ہوتے ہو اس کو روک ٹوک کرنے والے یہ جس مرضی گاڑی میں آئے تمہیں کو ئی تکلیف ہے میں نے جواباً کہا ہاں مجھے تکلیف ہے کلاس میں بیٹھے باقی بچے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں انہوں نے کہا آپ ہمارے بچے کو فارغ کردیں اور یوں وہ بچہ ہمارے ادارے سے چلا گیا یہ واقعہ 90ء کی دہائی کا ہے اب کچھ ہی عرصہ قبل اس بچے کی والدہ میری تلاش میں یہاں روات آپہنچی کیونکہ جب یہ واقعہ رونما ہوا تب میں ساگری میں ادارہ چلا رہا تھا اس بچے کی والدہ روتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئی میں نے کہا خالہ جی بتائیں مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے کیا میں نے سوال کیا اس کی ماں نے روتے ہوئے جواب میں کہا کہ نہیں بیٹا غلطی تو ہم سے ہوئی تھی اس وقت جب تم کو غلط سمجھ کر اپنے بیٹے کوغلط کاموں پر شاباش دی تھی میرا وہی بیٹا اس وقت آئی سی یو میں ہے اس کو نشے کی لت پڑھ گئی تھی ڈاکٹروں صرف دعا کا کہا ہے اور بعد میں مجھے پتہ چلا تھا کہ اللہ نے اسے نئی زندگی عطا کر دی ۔انہوں نے اپنے کیرئیر کی باتیں سناتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ خود غلط ہیں پھر سسٹم تو غلط ہونا ہی ہے ’’بیگ فری سکول سسٹم‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا مجھے تو یہ بات نہیں سمجھ آتی کہ وہ والدین کس بات کو سمجھ کے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ اس کا بچہ پڑھ رہا ہے بھی یانہیں جب بچہ بیگ ہی سکول میں چھوڑ کے گھر جائے گا تو اس کی گرومنگ کیسے ممکن ہے انہوں نے بتایا کہ ایسے ہی ایک ادارے کا سابقہ سٹوڈنٹ اپنے والدین کے ساتھ میرے پاس آیا وہ یہاں اپنے بچے کو داخلہ دلوانا چاہتے تھے اس بچے کی عمر سات سال ہے اور اس کو ABCلکھنا نہیں آتی جب میرے کہنے پر انہوں نے سابقہ ادارے سے اس بچے کی کاپیاں حاصل کیں تو وہ بالکل خالی تھیں ٹیوشن کے بڑھتے رجحانات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ میں ٹیوشن پڑھنے اور پڑھانے کے سخت خلاف ہوں جس بچے کو استاد کلاس میں گروم نہیں کر وا سکتا وہ ٹیوشن میں کیا پڑھائے گا میں اس کو دکانداری سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا ۔میرے ادارے سمیت کوئی بھی ادارہ سو فیصد درست نہیں ہو سکتا نقائص ہر دور میں موجود رہتے ہیں مگر ان کو درست کرنے کی کوشش میں لگے رہنا ہی کامیابی ہوتی ہے سب کہتے ہیں معیاری تعلیم کوئی بھی اپنے ادارے کو برا کہنے کو تیار نہیں مگر معیاری تعلیم کی فراہمی اسی وقت ممکن ہے جب بچے اور والدین کا آپس میں مکمل رابطہ ہو گا میں ہمیشہ والدین سے کہتا ہو ں آپ کم از کم ہر مہینے آئیں اور ہر ایک ٹیچر سے ملیں ان سے پوچھیں آپ کا بچہ اس وقت کس پوزیشن میں ہے پھر دیکھیں بچہ کیسے گروم کرتا ہے سال بعد جب بچہ رزلٹ لے کر گھر جاتا تب ہے والدین سر پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھ جاتے ہیں مگر پہلے توجہ نہیں دیتے والدین کی غٖفلت کے باعث بچہ خود کو آزاد محسوس کرنے لگتا ہے اور جب یہ بات اس کے ذہن میں آجائے تو اس کے اندر سے والدین اور اساتذہ کا خوف ختم ہوجاتاہے وہیں سے بچہ اپنی ناکامی کی جانب بڑھنے لگ جاتا ہے انہوں نے بتایا کہ ایک بار ایک بچے کا رزلٹ ناقص آنے پر والدین سکول آئے تو انہوں نے کہا کہ ہمارا بچہ تو بہت محنتی ہے رات بارہ بجے تک بند کمرے میں بیٹھ کے سٹڈی کرتا ہے میں ان سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آپ آج رات سے اس بچے کو کمرے کی کھڑکی سے دیکھیں کہ وہ رات کے بارہ بجے تک کیا پڑھتا ہے پھر رات کے تقریبا ساڑھے دس بجے کا وقت تھا کہ والدین کی فون آئی انہوں نے بتایا کہ ان کا بچہ آئی فون استعمال کر رہا ہے ان کی میٹھی میٹھی باتیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں تھیں میرے پاس ہی وقت کم تھا آخر میں انہوں نے بتایا کہ والدین نے مجھے دو باتیں سکھائی تھیں ایک یہ کہ جس کام میںّ آپ کی محنت شامل نہ ہو وہ روپیہ گھر مت لانا اور دوسرا یہ کہ جس کے لیے جتنی آسانیاں پیدا کر سکو کرتے جانا۔{jcomments on}
65