267

ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور ہماری ذمہ داری

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید میں بیس سال ہو چکے ہیں انہیں 2003میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس کے بعد مختلف قسم کے جھوٹے مقدمات بنا کر انہیں امریکی عدالت نے انصاف کے تمام تر تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے 86سال قید کی سزا سنائی۔ ان پر بننے والے مقدمات میں بالکل صداقت نہیں اور نہ ہی الزامات عائد کرنے والے امریکی حکام کے پاس ان الزامات کے کوئی ثبوت ہیں۔ انہوں نے چند جھوٹی کہانیاں گھڑی ہیں جن کی بنیاد پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت نے سزا سنائی ہے۔ امریکی حکام نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے امریکی فوجیوں پر گولیاں چلانے کی کوشش کی تھی اور انہیں افغانستان سے گرفتار کیا تھالیکن انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس طرح امریکی حکام کے پاس کسی بھی الزام کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
پاکستانی حکمرانوں بالخصوص جنرل مشرف نے امریکہ کو خوش کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور ان کے دور میں کوئی پاکستانی امریکہ کی نظر میں آ جاتا تو اسے امریکہ کے حوالے کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کے کیس میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور امریکی حکام انہیں باآسانی پاکستان سے لے اڑے۔ اس کے بعد مشرف دور میں ان کی رہائی کے لیے کیا کوشش ہونی تھی بعد کے کسی حکمران نے بھی کوشش نہیں کی۔ کئی بار سنہری مواقع ہاتھ آئے لیکن وہ بھی امریکی غلامی کا حق ادا کرنے کے لیے پاکستان حکام نے گنوا دیے۔ جیسے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی، شکیل آفریدی کی حوالگی، افغانستان سے امریکی انخلامیں مددایسے کئی مواقع پر پاکستان امریکہ سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کر سکتا تھا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس کی فکر ہو تو ایسا ہوتا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی بے قصور ہونے کے باوجود امریکہ میں پاکستانی حکمرانوں کی غفلت اور نااہلی کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہیں۔
چند روز قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے امریکی جیل میں بیس برس بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات بھی ایسی تھی کہ اس میں وہ ایک دوسری سے ہاتھ تک نہ ملا سکیں دونوں کے درمیان موٹے شیشے کی دیوار حائل تھی۔ اڑھائی گھنٹے کی ملاقات میں دونوں بہنوں نے مختصراً اپنے دکھ سکھ سنائے اور ملاقات اختتام پذیر ہو گئی۔ اس ملاقات سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر عافیہ پر جیل میں کئی طرح کے ظلم و ستم ہوئے جو انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیداروں کا خاصہ ہیں۔ ان کی بدنام زمانہ جیلیں ان کے انسانی حقوق کی داستانیں سناتی ہیں، ان کا کام فقط دوسروں پر تنقید کرنا اور دوسروں کی اصلاح کی فکر کرنا ہے اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت کریں تو معلوم ہو کہ انہوں نے انسانی حقوق کی جس قدر خلاف ورزیاں کی ہیں تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جاپان پر ایٹمی حملے کی داستان تو رہی ایک طرف ان کی جیلوں میں جس قدر مظالم کی دردناک داستانیں آئے روز رقم ہوتی ہیں انہیں سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر انہیں اسلام کی شرعی سزائیں ظلم معلوم ہوتی ہیں، اپنے کالے کرتوتوں کے باوجود اسلام کی اصلاح معاشرہ کے لیے مقرر کردہ سزاؤں کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے انہیں ذرا برابر شرم نہیں آتی۔
بہر حال ڈاکٹر فوزیہ کی ملاقات کے بعد پاکستانی عوام میں ایک بار پھر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا جذبہ بیدار ہو گیا ہے اور سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عافیہ
کی رہائی کے حوالے سے ٹرینڈ چل رہے ہیں مگر سوشل میڈیا پر تو سارے عوام ہیں۔ حکمرانوں کو تو اب بھی اس کی کچھ فکر نہیں ہے اور عافیہ صدیقی کو رہائی تبھی مل سکتی ہے جب ہمارے حکمران اس میں دلچسپی لیں گے۔ عوام بھی کسی خاص موقع پر پرجوش ہو جاتے ہیں اور ٹرینڈز وغیرہ چلاتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ کے لیے خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں جس سے حکمران بھی سکھ کا سانس لیتے ہیں کیونکہ عوام کی طرف سے اگر پرزور مطالبہ ہو تو حکمرانوں پر ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے جسے وہ نبھانا نہیں چاہتے۔
لہٰذا کسی بھی مطالبہ کو تسلیم کرانے کے لیے جدوجہد مسلسل ہونی چاہیے عوام کسی خاص واقعہ کا انتظار کیے بغیر مسلسل حکمرانوں کو جگاتے رہیں مختلف مواقع پر حکمرانوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اپنا جاندار کردار ادا کریں اور اس کیس میں دلچسپی لیں۔ یقینا اگر ہمارے حکمران اس کیس میں دلچسپی لیں اور اس کی پوری طرح پیروی کرتے ہوئے امریکی حکام سے بات چیت کریں یا ان کی چند مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر دباؤ ڈالیں تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہائی مل سکتی ہے لیکن یہ ہمارے حکمرانوں کی دلچسپی پر منحصر ہے اور عوام پر بھی کہ وہ حکمرانوں کو کس قدر ابھار سکتے ہیں۔
ضیاء الرحمن ضیاءؔ

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں