138

ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری!/طاہر یاسین طاہر

پاکستان پیپیلز پارٹی کے اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری آج کل سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ڈاکٹر عاصم سابق صدر آصف علی زرداری کے قریب ترین ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔ اس لیے ان کی گرفتاری اور اس کے ما بعد اثرات کا جائزہ لیا جانا ضروی بنتا ہے جبکہ ن لیگ اپنے قومی اسمبلی کے اسپیکر سمیت دو اہم ممبران کھو چکی ہے۔آنے والے ایام میں پی پی پی نون لیگ کو قومی اسمبلی کے اندر ’’ٹف ٹائم‘‘ دینے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ پی ٹی آئی انتخابی اصلاحات کا یجنڈا لے کر سڑکوں پر نکل سکتی ہے۔ بے شک اصلاحات کا پہلو اہم ہے اور اصلاحات نہ صرف انتخابی عمل میں اہم ہیں بلکہ پولیس، بیو رو کریسی ،محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم کے اندر بھی اصلاحات لازم ہیں۔ کراچی میں سندھ ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے دفتر سے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے ڈاکٹر عاصم کو حراست میں لے لیا تھا اور قومی احتساب بیورو کی ترجمان نے ان کی گرفتاری سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کو 24 گھنٹوں کے بعد جمعرات کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج سلیم رضا بلوچ کی عدالت میں پیش کیا اور آگاہی دی کہ انہیں 90 روز کے لیے حراست میں رکھا گیا ہے۔ڈاکٹر عاصم کو بغیر ہتھکڑیوں کے عدالت میں پیش کیا گیا، عدالت نے ان کا طبی معائنہ کرانے اور فیملی سے ملاقات کرانے کا بھی حکم جاری کیا ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عاصم کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے اور وہ ان کی اسیری کے دوران ان کے معالج بھی رہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد انہیں 2008 میں چیئرمین نیشنل ری کنسٹریشن بیورو تعینات کیا گیا، 2009 میں سینیٹر منتخب کیا گیا لیکن سپریم کورٹ کے دوہری شہریت کے بارے میں فیصلے کے بعد انہیں 2012 میں مستعفی ہونا پڑا۔مستعفی ہونے سے قبل وہ پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیر بھی رہے اور اس عرصے میں سی این جی اسٹیشن کے پرمٹ جاری کرنے کے علاوہ دیگر معاملات میں ان کے کردار پر مخالفین تنقید کرتے رہے ہیں۔وہ آج کل سندھ ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ کے عہدے پر تعینات تھے۔ڈاکٹر عاصم کراچی میں ایک نجی ہپستال کے مالک بھی ہیں، ان کی خدمات کے اعتراف میں سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہیں ستارہ امتیاز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں نشان امتیاز سے نوازا گیا ہے۔ان کے متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین سے بھی ذاتی مراسم ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق حکومت میں دونوں جماعتوں میں اختلافات کے وقت پس پردہ وہ بھی ثالثی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔‘‘عدالت میں پیشی کے موقع پر ڈاکٹر عاصم کی اہلیہ اور بیٹی بھی موجود تھیں، جنہوں نے عدالت سے ڈاکٹر عاصم حسین سے ملاقات کی اجازت مانگی، جسے عدالت نے منظور کرلیا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر عاصم کو حساس اداروں نے سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے دفتر سے حراست میں لیا تھا، ان پر دہشت گردوں کی مالی معاونت، منی لانڈرنگ، چائنا کٹنگ اور سی این جی اسٹیشنز کو غیر قانونی طور پر لائسنس دینے کے الزامات ہیں، تاہم ابتدائی تحقیقات کے بعد انہیں رینجرز کے حوالے کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری پر سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے شدید تحفظات اور ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دریں اثنا شہر قائد میں اینٹی کرپشن کورٹ نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما مخدوم امین فہیم کو ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی مالی اسکینڈل کیس میں گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے )نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور امین فہیم سمیت دیگر ساتھیوں کے خلاف 7 ارب روپے سے زائد مالیت کے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی پاکستان (ٹڈاپ )مالی اسکینڈل سے متعلق تفتیش مکمل کرتے ہوئے 12 مقدمات کے حتمی چالان عدالت میں پیش کر دیئے۔ ایف آئی اے کی جانب سے پیش کئے گئے حتمی چالان میں پیپلز پارٹی کے دونوں مرکزی رہنماؤں سمیت دیگر کو مفرور قرار دیا گیا، جس پر عدالت نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور امین فہیم سمیت دیگر افرادکو 10 ستمبر تک گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا۔ واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے دونوں مرکزی رہنما 12 مختلف مقدمات میں پیش ہو کر اپنی ضمانتیں کروا چکے تھے۔
یوں یکے بعد دیگرے پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں کی کرپشن کیسز میں گرفتاریوں کے بعد پی پی پی کی طرف سے سخت ردعمل آیاہے اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ اگر حکومت نے سابق صدر آصف علی زرداری پہ ہاتھ ڈالا تو پھر ’’جنگ‘‘ ہوگی۔سوال مگر یہ ہے کہ جنگ کیوں ہو گی؟ اور حکومت ہاتھ کیوں نہیں ڈالے گی؟ پیپلز پارٹی کو اعتراض یہ ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں نون لیگ کے کسی بھی رہنما کو گرفتار نہیں کیا گیا اگرچہ کئی ایک پر کرپسن کے کیسز اور نیب میں انکوائریاں چل رہی تھیں جنھیں سابق صدر آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کی ’’نذر‘‘ کر دیا گیا اب پیپلز پارٹی اسی سلوک کا مستحق خود کو سمجھتی ہے۔لیکن شومئی قسمت کہ سارے معاملات نون لیگ کے ہاتھ میں بھی نہیں۔ ہاں البتہ پیپلز پارٹی کا یہ اعتراض بڑا جاندار ہے کہ کرپشن،بھتہ خوری اور دہشت گردوں کے سہولت کار صرف صوبہ سندھ میں ہی نہیں بلکہ پنجاب میں کہیں زیادہ متحرک اور با اثر سہولت کار موجود ہیں ان پر بھی ہاتھ ڈالا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جلد ہی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی یہ خواہش بھی پوری ہوتی نظر آرہی ہے۔دہشت گرد کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کی ہلاکت اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پورے ملک اور معاشرے سے کرپشن، بدعنوانی،منشیات فروشی، دہشت گردی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے گٹھ جوڑ کو توڑ دیا جائے گا اور ملک کو امن و ترقی کے راستے پر ڈال دیا جائے گا۔ اس میں مگر سیاسی حکومت کا حصہ بہت ہی کم ہے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں