ڈاکٹر اجمل نیازی بھی رب غفور کے پاس جا پہنچے۔ اللہ پاک قبر کی منازل آسان فرمائے آمین۔ میری نثر کی کتاب آبروے ما جب لاہور علم وعرفان پبلشر کے پاس زیر طبع تھی تو مجھے لاہور جانا پڑا۔ میں نے لاہور پہنچنے سے ایک گھنٹہ پہلے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا کہ میں لاہور آ رہا ہوں اور آپ سے ملکر اپنی کتاب کی پروف ریڈنگ کے لیے جاوں گا۔ ڈاکٹر صاحب یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور میرا انتظار کرنے لگے۔ میں نے راستے میں ناشتہ کر لیا تھا اور ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ ہم دونوں ایک ساتھ ناشتہ کریں گے۔ پہنچنے سے دس منٹ قبل ڈاکٹر صاحب کا فون آیا کہ میں ناشتے پر آپکا انتظار کروں گا۔ میں نے کہا میں ناشتہ کر چکا ہوں۔ وہ ناراض ہوئے اور کہنے لگے پھر میرے پاس نہ آتے۔ میں نے کہا میں چائے پی لوں گا گھر پہنچا تو درویش انسان جسے دنیا سلام پیش کرتی ہے اپنے سامنے ایک ٹرے میں رس رکھے میرا انتظار کر رہا تھا۔ دو کپ چائے بھی ہم نے ناشتہ کیا، وہ ناشتہ میری زندگی کا سب سے خوبصورت ناشتہ تھا کیوں کہ اس میں خلوص کی بہتات تھی۔ اسی ملاقات میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنا لہو لہان قلم دیا اور کہنے لگے شاہد پتر میں بولتا ہوں اور آپ لکھتے جائیں اب میں بہت کمزور ہوگیا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب بولتے رہے اور میں لکھتا رہا۔ انکی یہ تحریر میری کتاب آبروے ما میں موجود ہے۔اور وہ ملاقات ان سے میری آخری ملاقات تھی ملاحظہ فرمائیں۔
تخلیقی جذبوں والے شاہد جمیل
شاہد جمیل منہاس میرے کولیگ ہیں اور نوائے وقت میں کالم لکھتے ہیں۔ ان کے کالم کا عنوان آبروئے ما ہے۔ یہی عنوان ان کے کردار اور شخصیت کا غماز اور ترجمان ہے۔ قلم کی بھی آبرو ہوتی ہے۔ شاید یہاں منہاس صاحب کی مراد آبروئے صحافت ہے اور آبروئے قلم ہے۔ ہم مرشدو محبوب چیف ایڈیٹر نوائے وقت مرحوم ڈاکٹر مجید نظامی کو بھی آبروئے صحافت کہتے ہیں۔ ان کے اخبار میں کام کرنے والے اور لکھنے والے سب دوست صحافت کی آبرو کو اپنی آرزو کے ساتھ رلاتے ملاتے رہتے ہیں۔ شاہد کے کالموں کے اندر بکھرتی اور نکھرتی ہوئی سچائی، توانائی اور گہرائی کو دیکھ کر اپنی یہ بات یاد آتی ہے کہ میں کبھی کبھی کالم کو قالم کہتا ہوں کیونکہ اب قلم کی آبرو کالم سے وابستہ ہو گئی ہے۔ کالم اب باقاعدہ ایک صنف سخن ہے۔ آج کل زیادہ تر کتابیں شاعری پر یا منتخب کالموں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ شاہد نے سارے کالم اس کتاب میں شامل کر دیے ہیں کہ ان کا ہر کالم ایک منتخب کالم ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف کالم لکھتے ہیں۔ ان کا کوئی اور مقصد اس تحریر کے ساتھ منسلک نہیں ہوتا۔ مجھے یہ یقین ہے کہ تخلیقی جذبوں والے شاہد جمیل منہاس بہت جلد ایک نمائندہ کالم نگار بن کر سامنے آئیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ نوائے وقت کے کالم نگار ہیں۔ یہ کالم اتنے نظریاتی اور جذباتی ہیں کہ کوئی دوسرا اخبار ان کی اشاعت کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ لکھتے رہیں کہ اب پڑھنے والوں نے ان کے کالم کا انتظار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اعتبار، وقار اور افتخار انتظار کے سچے جذبے سے ہی جنم لیتے ہیں۔ شاہد جمیل منہاس شاعر بھی ہیں۔ استاد بھی ہیں دانشور بھی ہیں مگر ان کا کالم نگار ہونا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے محبت کرنے والے ایک نوجوان نے اپنی دوست سے کہا کہ میں محبت کا شجر ہوں تو اس نے کہا پگلے محبت شجر نہیں ہوتی محبت چھاؤں ہوتی ہے۔ مجھے منہاس صاحب سے مل کر ایسی محبت کا احساس ہوا ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ اپنی آبرو کو اپنے قلم اور کالم کے ساتھ وابستہ رکھیں گے۔
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
