وہ تعداد میں انتہائی قلیل تھے۔ اپنے سے تین گنا بڑے لشکر سے مقابلہ کرنے چلے تھے۔ دشمن سامان حرب وضرب سے لیس تھا۔ اور ان مٹھی بھر سپاہیوں کے پاس تعداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ دشمن کے ساتھ دوبدو لڑنے کیلئے سازوسامان بھی واجبی سا تھا۔
دشمن بدمست ہاتھی کی طرح دندنا رہا تھا۔ اور نشے میں چور ہوایک نہایت ہی آسان فتح کے خواب دیکھ رہا تھا۔یہ مٹھی بھر سپاہی ماہ مقدس کے فرائض و واجبات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھوکے بھی تھے اور پیاسے بھی۔ لیکن ان کی بھوک اور ان کی پیاس ان کے یقین اور ایمان کو متزلزل نہ کر سکی۔یقین ایمان اور تنظیم جیسے عظیم جذبوں سے مزین یہ پارسا لوگ اپنے کمانڈر پہ جان فدا کرنے کیلے ہم تن گوش تھے۔
اور ہوتے بھی کیوں نہ جب لیڈر دو جہانوں کے سردار افضل الانبیاء حضرت محمد ؐ ہوں تو ان پہ جان نچھاور کرنا ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ اسلام اور کفر کہ درمیان پہلا معرکہ تھا اور یہ معرکہ رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں وقوع پذیر ہوا۔ جب آپؐ کے 313 جان نثار اپنی جانوں کی پرواہ کیئے بنا اسلام کی عزت و ناموس کی خاطر اپنی جانیں ہتھیلی پہ رکھ کر ساز و سامان کی کمی کو نظراندازکرتے ہوئے مشرکین مکہ سے جو کہ تعداد میں بھی تین گنا زیادہ تھے بدر کے مقام پر بر سر پیکار تھے۔
نوٹ کیجئے بنی نوع انسان کا سب سے بڑا دشمن ابلیس لعین بھی سراقہ بن مالک کی شکل میں کفار کی ہمت و حوصلہ افزائی کیلئے ان کے ہم رکاب تھا۔ لیکن قربان جائیں نبی ؐ کے ان 313 جان نثاروں پہ جنہوں نے بے سرو ساماں ہونے کے باوجود باوجود اپنے سے تین گنا بڑے لشکر کو جو فتح کے نشے میں چور تھا شکست فاش سے دو چار کیا اور ایک تاریخ رقم کی۔ یہ فتح تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کیلئے زندہ جاوید رہے گی۔
اور جب بھی اسلام و کفر کے درمیان کہیں بھی کوئی معرکہ ہوا یہ ہمیں اس پختہ ایمان یقین اور تنظیم کی یاد دلاتی رہے گی۔ جس کا درس جنگ بدر میں امت مسلمہ کی عظیم ہستیوں نے ہمیں دیا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب بھی کفر و اسلام کے مابین کوئی معرکہ ہوا تونہ صرف عددی بلکہ سامان حرب وضرب کی تعداد کے لحاذ سے اسلام کے نام لیوا ہمیشہ کم ہی رہے۔
لیکن جو چیز کفار کہ مقابلہ میں ان سرفروشوں کے پاس وافر مقدار میں رہی اور رہے گی وہ جذبہ ایمانی، یقین اور اسلام کے نام پہ کٹ مرنے کا شوق ہے۔ اور یہی وہ ارکان ہیں جو میدان جنگ میں شہادت کو زندگی پہ ہزار مرتبہ ترجیح دینے سے مزین کرتے ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 249میں اللہ رب العزت اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ترجمعہ کئی مرتبہ اللہ کے حکم سے تھوڑی سی جماعت (خاصی) بڑی جماعت پر غالب آجاتی ہے۔
اور اللہ صبر کرنے والوں کو اپنی معیت سے نوازتا ہے۔ طارق بن زیاد کا لشکر ہو یا پھر صلاح الدین ایوبی کا۔ جنگ بدر کا معرکہ ہو یا جنگ احد کا مسلمان تعداد میں ہمیشہ ہی کم رہیاور اپنے سے کئی گنا بڑی افواج کا مقابلہ کیا۔ یہ اسلام کی عظمت اور مومنین کی دیدہ دلیری کا ایک درخشاں باب بھی ہے۔اسی دلیری کا ایک روشن باب چھ ستمبر 1965 کا دن بھی ہے۔کہ جب چانکیہ کے متوالوں نے جاگتی آنکھوں سے ایک خواب دیکھا۔ ہندو بنیا صبح کا ناشتہ لاہور میں کرنے کی خواہش دل میں سجائے رات کی تاریکی میں بنا کسی اعلان جنگ کے وطن عزیز کے خلاف بدمست ہاتھی کی طرح چڑھ دوڑا
لیکن شاید وہ غزنوی کی یلغار اور سوری کی للکار کو فراموش کر بیٹھا تھا۔ وہ یہ بھول چکا تھاکہ عددی برتری یا سازو سامان ایمان کے مقابلے میں کوئی معنی نہیں رکھتا اور بلاشبہ ان کا یہ نشہ اور طاقت ایک اڑتی ہوئی روئی کا گالہ ثابت ہو گا۔ اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کو افواج پاکستان نے اپنی غیور عوام کے شانہ بشانہ لڑ کر ناکوں چنے چبوا دئے۔سکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم جیسے شیروں نے ہندوستان فضائیہ کے پانچ طیاروں کو ایک منٹ سے بھی کم وقت میں مار گرایا۔اور ان کے دانت کھٹے کر دئے۔
بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف کا لاہور کے جم خانہ میں شام کی محفل سجانے کا خواب میجر عزیز بھٹی شہید جیسے شیر دل سپاہیوں نے چکنا چور کر دیا۔ پاکستانی افواج کے عظیم سپوتوں نے چونڈہ جیسے اہم محاذ کو ہندوساتانی ٹینکوں کا قبرساتان بنا دیا۔ افواج پاکستان کے جری سپاہیوں نے اپنے جسموں پہ بم باندھ کر ہندوستانی افوج کے ٹینکوں کے پر خچے اڑا دئیے۔
محدود عسکری وسائل کے ہوتے ہوئے نہ صرف پاکستانی افوج بلکہ پاکستانی عوام نے ہندو بنئے کے اس خواب کو نوشتہ دیوار کر دیا اور بین الاقوامی مبصرین بھی پاکستان کی اس دیدہ دلیری کی داد دئے بنا نہ رہ سکے۔ یقیناً ایمان کی قوت، جذبہ شہادت اور پختہ یقین سے سے بڑی سے بڑی افواج کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
بری و فضائی افواج کے کے ساتھ ساتھ پاک بحریہ نے بھی دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پاکستان کی بحری حدود کی حفاظت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ دشمن کے ریڈار سٹیشن کو تباہ کر کے اس کو سنبلھنے کا موقع ہی نہ دیا۔
یاد رکھئے پاکستان نیوی وطن عزیز کی نہ صرف بحری سرحدوں کی حفاظت کی ضامن ہے بلکہ یہ بحری سرحدوں کے ساتھ ساتھ فضائی اور بری سرحدوں کی نگرانی کیلئے ہمہ تن گوش رہی ہے اور رہے گی۔ سر کریک کا دفاع ہو، سمندر کی فضائی نگرانی ہو، ہا ہو پھر سمندر کی تہہ میں چھپے دشمن کے ناپاک عزائم یہ ہمیشہ ہر دم تیار رہی۔ اس کے جوان وطن عزیز کے دفاع کیلئے ہمیشہ سے سینہ سپر رہے
اور دفاع وطن کو ہمیشہ سے ہی مقدم جانا اور جانے بھی کیوں نہ، کہ وطن عزیز کی محبت سے لبریز ان کے سینے ہمیشہ چٹان کی مانند مضبوط تھے اور رہیں گے۔وطن سے محبت کے بارے میں ہمارے پیارے نبیؐ نے مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کتنا پاکیزہ شہر ہے تو اور تو کتنا مجھے محبوب ہے، میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہ رہتا۔ (سنن ترمذی 3926)
قائدعظم ؒ نے فرمایا تھا پاکستان نیوی ایک چھوٹی فورس ہے لیکن اس کی ذمہ داری بہت بڑی ہے۔ اسی ذمہ داری کو بجا لاتے ہوئے 1965کی جنگ میں پاکستان نیوی نے دشمن کو اس کے گلے سے جا دبوچا۔ اور نہایت ہی کم وقت میں محض چھ میل کے فاصلے سے دشمن پہ ایک کاری وار کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔
پاک بحریہ کے اس حملے نے دشمن کو نہ صرف حیران کر دیا بلکہ سنبھلنے تک کاموقع نہ دیا۔ پاکستان نیوی کا آپریشن سومنات آپریشن دوارکا کے نام سے مشہور ہے۔ دوارکا دشمن بحریہ کا ایک آپریشنل ریڈار اسٹیشن تھا۔ جو دشمن کے بمبار طیاروں کو راہنمائی فراہم کرتا تھا۔ اور کراچی جیسے اہم تجارتی و معاشی مرکز پر دشمن فضائیہ کو حملہ کرنے کیلئے راہنمائی فراہم کر رہا تھا۔
پاکستانی بحریہ 8 اور 9 ستمبر کی درمیانی رات کو انتہائی سرعت اور پروفیشنل طریقے سے کراچی سے تقریباً 120میل دور مشرق میں دوارکا ریڈار اسٹیشن کی جانب گامزن تھی۔ عین ہدف کے قریب پہنچ کر پاکستانی بحری بیڑے نے رات کے درمیانی پہر کو کئی اطراف سے حدف کے مرکز میں گولے داغ کر دوارکا کو تباہ کر دیا۔جس سے اسٹیشن پہ موجود کئی بھارتی فوجی جہنم واصل ہوگئے۔
اور دشمن اپنی اس شکست پر دانت پیستا رہ گیا۔ یہاں تک کہ اس کو سنبھلنے کا موقع تک نہ ملا۔آپریشن دوارکا کو پاکستان میں ایک بڑے فوجی آپریشن کے طور پہ دیکھا جاتا ہے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں ایک ریلوے ریسٹ روم اور چھوٹے سے ریلوے ٹریک کو بھی شدید نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ پاکستانی بیڑے کی اس بمباری سے ایک فوجی چوکی، ایک فوجی اڈہ اور ٹریفک پولیس کا ایک سٹیشن بھی پاکستان نیوی کے اس حملے کے زیر عتاب آیا۔
حملے کے نتیجے میں بھارتی بحریہ کے حوصلے اتنے پست ہوئے کہ کوچن کے قریب تعینات INS Mysore نے پاکستان نیوی کے اس حملے کا جواب تک نہ دیا۔ بلاشبہ پاکستانی بحریہ کا یہ کامیاب ترین آپریشن اس کی پیشہ وارانہ مہارتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ شہر قائد کو بھارتی حملوں سے محفوظ رکھنے کیلئے دوارکا آپریشن انتہائی کار گر ثابت ہوا۔ اپنے چھ گنا بڑی بحری فوج پر حملہ کر کے بحفاظت اپنے پانیوں میں واپس آنا یقیناً ایک بے مثال کامیابی تھی۔
اس آپریشن میں پاک بحریہ کے سات بحری جہاز پی این ایس بدر، پی این ایس عالمگیر، پی این ایس شاہ جہاں، پی این ایس ٹیپو سلطان، پی این ایس بابر، پی این ایس جہانگیر اور پی ایس ایس خیبر نے حصہ لیا اور تمام کے تمام خیبر شکن ثابت ہوئے۔ مزید برآں پاکستان نیوی کی مایہ ناز آبدوز پی این ایس ایم غازی انڈین نیوی کے جہازوں کی تاک میں کراچی کی بندرگاہ کو چھوڑ کر کسی بھی خطرہ سے نمٹنے کیلئے جنگ کے ہمہ تن تیار تھی۔ اور بمبئی کے پانیوں سے نکلنے والے شکار کیلئے بے تاب تھی۔
انڈین ائیر بیس جو کہ انڈین گجرات کے علاقہ جام نگر میں واقعہ تھا کراچی شہر کی رنگینیوں کو گل کرنے کیلئے دوارکا راڈار سٹیشن پہ انحصار کئے ہوئیتھا جو کہ پاکستان نیوی کی کاری ضرب سے پاش پاش ہو گیا۔اور پاکستان نیوی نے یہ ثابت کیا کہ وہ وطن عزیز کی نہ صرف نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے بلکہ جغرافیائی سرحدیں چاہیں وہ آسمان کی وسعتوں میں ہوں یا سمندر کی گہرائیوں میں زمین کے اندھیروں میں ہوں
یا پھر سطح آب کی رعنایوں میں، کی حفاظت کیلئے ہر دم تیار ہے اور رہے گی۔اور چھ ستمبر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا۔ یہ ہمارے ماضی کا کے شاندار کارناموں کی یاد دلاتا رہا گا۔ اس افواج پاکستان نے سینہ سپر
ہو کر دشمن کو انتہائی سخت ہزیمت سے دو چار کیا۔
پاکستان زند باد پاکستان نیوی پائندہ باد۔
آخر میں پاکستان کی عوام کیلئے ایک پیغام۔ بقول راغب مراد آبادی
ہم وطن یہ گلستان تیرا بھی ہے میرا بھی ہے۔
اس کا ہر سودو زیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے۔
قائداعظم کی کہتے ہیں ہم امانت جسے۔
ورثہ یہ اے مہربان تیرا بھی ہے میرا بھی ہے۔
آب راوی ہو کہ آب سند ھ ہے سب کے لئے۔
دامن موج رواں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے۔