چک بیلی خان میں اس وقت کل 15قبرستان موجود ہیں جو تمام مخیر لوگوں کی عطیہ کردہ زمینوں پر بنے ہوئے ہیں عطیہ کردہ قبرستانوں میں کوئی مقرر کردہ گو ر کن نہیں مرنے والے کے عزیز و اقارب، خاص کر ثواب کی نیت سے عام لوگ قبر کی تیاری کا کام سرانجام دیتے ہیں
اور یہ کام برسوں نہیں صدیوں سے دیگر دیہاتی کلچر کی طرح چک بیلی خان میں بھی ہو رہا ہے جو دیہات سے ترقی کرتے اب چھوٹے سے شہر کی شکل اختیار کر چکا ہے زندگی کی حقیقت اور مال و زر کو بے معنی سمجھنے والے لوگ ہر دور میں اپنی ذاتی زمینیں عطیہ کرتے رہے ہیں
اگرچہ شہری شکل اختیار کرنے کے بعد پاکستان کے کونے کونے سے آکرآباد ہونے والے لوگوں کی تدفین بھی یہیں ہونے سے قبرستانوں کی جگہوں میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے دوسری جانب راہ خدا میں مال خرچ کرنے والوں کے اندر جذبہ ایمانی کو دیکھتے ہوئے
اب بھی لوگوں کی امیدیں ختم نہیں ہوئیں لیکن جہاں اچھائی ہوتی ہے وہاں برائی بھی اپنی راہ نکالنے کی ضرور کوشش کرتی ہے مگر کامیابی صرف اچھائی کو ملتی ہے اگر برائی کو کچھ ڈھیل دی گئی ہے تو وہ روز قیامت تک پھیلانے کے لئے ابلیس کو ڈھیل دی گئی ہے چک بیلی خان میں بھی قانون قدرت بالکل اسی طرح چل رہا ہے نیک لوگ نیکی کمانے میں لگے ہوئے ہیں
اور ابلیس اپنے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے جو ں جوں چک بیلی خان ترقی کر رہا ہے زمینوں کی قیمتیں آسمان کو چھونا شروع ہو گئی ہیں اب تو مردوں کو بھی قبروں سے نکال کر بیچنے تک نوبت پہنچتی جا رہی ہے قبرستان اور قبروں کی تیاری میں جہاں لوگ نیکی سمجھ کر خود کام کرتے تھے وہاں کمیٹیا ں بنا کر فنڈز اکٹھے کرنے کے بہانے دیکھنے کو مل رہے ہیں
عام آدمی صرف نیکی کے لفظ کو سن کر اپنی جیب سے پیسے نکال کر دے دیتا ہے لیکن اسے ادراک ہی نہیں ہوتا کہ یہ لوگ قبرستان کے نام پر دھوکہ اور فراڈ کر رہے ہیں جبکہ خود ذاتی مفاد کیلئے قبرستانوں کو بھی نہیں بخشتے یہی معاملہ محلہ عیدگاہ کے قبرستان میں نظر آ رہا ہے جہاں چک بیلی خان شہر سے باہر کے لوگوں کی آبادی بہت زیادہ ہے نماز جنازہ عید گاہ میں ادا کی جاتی اور وہاں سے میت اٹھا کر پانچ منٹ کی مسافت پر محلہ عیدگاہ کے قبرستان میں تدفین کر دی جاتی تھی حال ہی میں بے پناہ مال و زر رکھنے والے کئی لوگوں نے بجائے
اس نیک کام میں راستہ دینے کا حصہ ڈالنے کے پچھلی زمینوں کے مالکان کو بلیک میل کر کے ان کی زمینیں سستے داموں خریدنے کیلئے دیواریں بنا کر قبرستان کا راستہ بند کر دیا اگر لوگوں نے کہیں دائیں بائیں سے میت قبرستان لے جانے کی کوشش کی توانھوں نے ذاتی سامان رکھ کر ان راستوں کو بھی بند کر دیا اب محلہ عیدگا ہ کے لوگوں کو محلہ عیدگاہ کے قبرستان میں میت کی تدفین کیلئے پہلے عید گاہ سے سب تحصیل چوک، وہاں سے مین راولپنڈی روڈ پر بلال مسجد سے تھوڑا پہلے ایک نجی سکول کی گلی تک اور پھر وہاں سے عیدگاہ روڈ کے متوازی چل کر قبرستان پہنچنا ہوتا ہے
جہاں میت اٹھانے والوں کے کندھے بھی جواب دے جاتے ہیں کیونکہ یہ فاصلہ دو کلومیٹر کے لگ بھگ بن جاتا ہے باہر سے مزدوری کی خاطر چک بیلی خان آباد ہونے والا ایمبولینس یا میت اٹھانے والی گاڑی کا خرچہ بھی اٹھانے کے قابل نہیں ہوتا اور بیچارہ اگر یہ کر بھی لے تو تدفین والے لوگ ہی اتنا لمبا فاصلہ دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں
اور سڑک پر کھڑے ہو کر ہی دعائے مغفرت کر دیتے ہیں پھر میت جانے اور اس کے ورثا جانے لوگوں کی ایسی مشکلات،نیکی کے نام پر پیسہ اور نام کمانے والوں کے لئے گولڈن مواقع ہوتے ہیں وہ حالات کو بھانپتے ہوئے فوری طور پر لوگوں کو اکٹھا کر کے کوئی کمیٹی یا تنظیم بنا کر مسئلہ کے حل کا فیصلہ لے لیتے ہیں
سادہ لوح لوگ ان کے دام میں آ کر امید رکھ کر ان کی قوت بن جاتے ہیں مذکورہ قبرستان کا راستہ بند کرنے والے لوگوں میں بھی اسی طرح کی تنظیم بنا کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والا ایک شخص بھی بالواسطہ طور پر اس میں شامل ہے معاشرے کے مسائل کو اپنے ذاتی مقصد کے لئے استعمال کرنے والے ایسے لوگ صرف اپنے مقاصد کی لالچ کا چشمہ لگا کر دیکھتے ہیں تو انھیں شہر میں بڑے بڑے مسائل نظر آتے ہیں جن سے ان کے کلیجے پھٹ جاتے ہیں
ستر کوس دور کا مسئلہ انھیں نشتر بن کر چبھتا ہے لیکن اپنے ہاتھوں سے ایک قبرستان کے مردوں اور ان کی تدفین کیلئے جانے والوں کو تکلیف دینے پر نہ ان کا کلیجہ پھٹتا اور نہ ہی ان کی آنکھوں کی عیاری کو چھپانے والا وہ چشمہ اترتا ہے جس سے انھیں معاشرتی خرابی میں اپنے حصے کا عمل نظر آئے
چک بیلی خان کے با اثر لوگوں اور بالخصوص محلہ عیدگاہ کے معززین کو چاہئے کہ محلہ عیدگاہ کے قبرستان میںمدفون لوگوں اور ان کے ورثادرمیان حائل دیوراوں کو ختم کروائیں تاکہ لوگوں کو اپنے پیاروں کی تدفین میں آسانی ہو اور تدفین کے بعد قبر اور قبرستان کی دیکھ بھال ان کے گھر کے سامنے سے ہی ہو جائے نہ کہ وہ دو کلومیٹر شہر کے رش سے یو ٹرن لے کر قبرستان پہنچیں۔