چوہدری محمد اشفاق‘نمائندہ پنڈی پوسٹ
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 52میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں اس حلقہ میں سب سے اہم امید وارچوہدری نثارعلی خان ہیں جبکہ وزیر داخلہ کے مد مقابل متوقع امیدواروں نے بھی اپنی مہم خاصی تیز کردی ہے اور رمضان کا پور ا مہینہ افطار پارٹیوں میں بھر پور شرکت کی ہے۔ فوتگیوں جنازوں میں جانا لازم کردیا ہے ۔ لیکن اسکے باوجودکسی بھی سیاسی پارٹی کیلئے چوہدری نثار علی خان سے مقابلہ کرنا بہت مشکل ثابت ہوگااور اگر مختلف سیاسی پارٹیوں نے الگ الگ اپنے امیدوار کھڑے کر دئیے تو اس صورتحا ل میں ناممکن بھی ہوجائیگا اور چوہدری نثارعلی خان اس صورتحال سے بھر پور فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائنگے ۔ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اگر پانامہ کیس کا فیصلہ ن لیگ کے خلاف آگیا تو ن لیگ کی سیاست کافی کمزور ہوجائیگی اور اسکے اثرات اگلے آمدہ جنرل الیکشن پر ضرور پڑیں گے اور ن لیگ سیاسی طور پر ایک بڑے نقصان سے دوچار ہوسکتی ہے لیکن چوہدری نثارعلی خان کی سیاست پر اس صورت میں بھی کوئی خاص فرق پڑتا دکھائی نہیں دے رہا ہے کیونکہ انکی سیاست کا ایک خاص انداز ہے جو دوسرے سیاستدانوں سے بہت مختلف ہے حلقہ میں زیادہ تر وقت ن لیگ کے علاوہ انکے ذاتی بھی ہیں اورزیادہ تر ووٹر انکی ذات سے متاثر ہوکر ان کیلئے کامیابی کا باعث بنتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار غلام سرور خان چوہدری نثار علی خان سے مقابلہ کرنے کیلئے پرعزم دکھائی دے رہے ہیں اور انکی سیاسی سرگرمیوں سے صاف نظر آرہا ہے کہ اگر پارٹی نے انکو گرین سگنل دیا تو وہ حلقہ این 52اور53دونوں میں چوہدری نثارعلی خان کا مقابلہ ڈٹ کر کریں گئے اسکی وجہ یہ ہے کہ غلام سرور خان نے کلرسیداں کے گردونواح میں چند جلسے ایسے کیے ہیں جن میں عوام علاقہ کیطرف انکو بے پناہ محبت حاصل ہوئی ہے جسکے باعث وہ دلی طور پر یہ بات محسوس کر چکے ہیں کہ اس حلقہ کے عوام مایوسیوں کا شکار ہیں دوسری طرف پی ٹی آئی کے رہنما کرنل اجمل صابر راجہ جو صرف این اے 52سے متوقع امیدوار ہیں بھی اپنی سیاسی مہم کو بہت عروج پر لے جاچکے ہیں وہ بھی چوہدری نثار علیخان کو ٹف ٹائم دینے کیلئے بھر پور حکمت علمی پر عمل پیرا ہیں ۔ پی ٹی آئی چوہدری نثار علیخان کو صرف ایک ہی صورت مین ٹف ٹائم دینے میں کامیاب ہوسکتی ہے جب وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کرلے بصورت دیگر مقابلہ تھوڑا مشکل ہوگا لیکن اسکے باوجود کرنل اجمل صابر راجہ اپنی پارٹی کو مضبوط بنانے کیلئے تمام کاوشیں بروئے کار لا رہے ہیں پیپلز پارٹی این اے 52میں بالکل غیر متحرک ہے انکا کوئی خاص لیڈر سیاسی مہم میں شامل نہیں ہاں البتہ چھوٹی سطح پر کارکن تھوڑی بہت کوششیں کرتے نظر آرہے ہیں۔ان دنوں ایک اور خبر گردش کررہی ہے کہ پیپلز پارٹی ضلعی صدر راولپنڈی چوہدری ظہیر سلطان کو این اے52میں اپنا امیدوار نامزد کرنے کیلئے منصوبہ بند ی کر رہی ہے ۔ اگر ایسا ممکن ہوگیا تو اسکا صاف طورپر یہ مطلب ہوگا کہ چوہدری نثارعلیخان کو واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کی دعوت دے دی جائے ۔ق لیگ بھی محض زبانی جمع خرچ سے کام لے رہی ہے اور ابھی تک کوئی بھی فیصلہ کرنیکی صورتحال سے بالکل دورہے البتہ یہ بات صاف نظر آ رہی ہے کہ ق لیگ خود اپنا امیدوار لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے اپنا اتحاد قائم کرسکتی ہے حالانکہ ق لیگ نے کلرسیداں کے حوالے سے چند کام ایسے بھی کیئے ہیں جنکو آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی لیکن اسکے باوجود تحصیل کلرسیداں میں وہ بالکل غیر مصروف ہوچکی ہے جماعت اسلامی بھی اس حلقہ میں متحرک ہے وہ کبھی کبھار ایسے پروگرام ترتیب دیتی رہتی ہے جن سے پارٹی کا نام زندہ رہے وہ اس بار راجہ عرفان یوسی لوہدرہ کو ایم پی اے کاٹکٹ دینے کیلئے صلاح ومشورہ کررہی ہے جبکہ تحریک لیبک بھی کافی محترک ہوچکی ہے اس کا امیدوار آنے میدان میں آنے سے ن لیگ کی ووٹ ڈسٹرب ہوگی دوسری طرف عوام علاقہ کی نظروں میں چوہدری نثار علیخانکی طرف سے کروائے گئے لاتعداد ترقیاتی کاموں کی تکمیل بھی ہے جو عوام کو دوسری پارٹیوں کیطرف دیکھنے میں رکاوٹ بنتے ہیں لیکن وفاقی وزیر داخلہ کے اس حلقہ میں اب بھی بہت سے ترقیاتی کام ہونا باقی ہیں جن میں سرمہرست گیس کا منصوبہ ہے جسکا عوام علاقہ بڑی شدت سے انتظار کرہے ہیں چوہدری نثارعلیخان نے گیس کا اعلان کردیاتو صورتحال یکسر بدل جائے گی اسکے علاوہ بھی بہت سے کام ایسے ہیں جن پر سخت نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ جوبھی پارٹی عوام علاقہ کے مفاد میں کام کرے گی عوام بھی اسی کو پذیرائی دیں گے اب عوام کافی باشعور ہوچکے ہیں اور وہ کھوٹے اور کھرے کی تمیز کرنا جا ن چکے ہیں اور یہ بھی بخوبی جان چکے ہیں کہ انکے حق میں کون بہتر ہے آنے والے دنوں میں سیاسی سر گرمیاں مزید تیز ہوتی چلی جائیں گی جس سے سیاسی فضا خوشگوار ہو جائے گی اس حلقہ میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے درمیان ہی ہوگا
169