بابر اورنگزیب،پنڈی پوسٹ/سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کو اسلام آباد سے رہائی کا پروانہ ملا تو مسلم لیگ ن کے ان کارکنوں میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی جو میاں برادران کے بیرون ملک جانے کے بعد اور باقی اعلی قیادت کی گرفتاری سے کسی حد تک مایوس اور پریشان دکھائی دے رہے تھے کیونکہ اعلی قیادت کے بیرون ملک جانے اور باقی اہم رہنماو¿ں کی پے در پے گرفتاریوں کے سبب مسلم لیگ ن کا مستقبل کیا کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اور کوئی ایسا رہنما بھی سامنے نہیں تھا جو میاں برادران کے بعد پارٹی کو صحیح سے لیڈ کرتا ماسوائے شاہد خاقان عباسی کے جو اس کمی کو پورا کر رہے تھے پارٹی کی سطح پر بہت متحرک تھے قومی اسمبلی ہو یا کوئی ٹی وی ٹاک شو ہر جگہ پارٹی کو ڈیفنڈ کرتے نظر آتے گورنمنٹ کی پالیسوں پر بھی کھل کر مخالفت کرتے دکھائی دیتے یعنی ایک اپوزیشن لیڈر کا بھرپور کردار ادا کر رہے تھے شاہد انکی اسی خوبی کے سبب میاں نواز شریف انکو اپنے قریبی ساتھیوں میں شمار کرتے ہیں جب میاں نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہل ہوئے وزرات عظمی کی بات ہوئی کہ اگلا وزیراعظم کس کو بنایا جائے تو کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ اس دھیمے مزاج والے شخص شاہد خاقان عباسی کے نام کا قرعہ نکلے گا اس کے بعد 2018 میں جب قومی اسمبلی کی دو نشستیں ہار گئے اور قومی اسمبلی سے باہر ہوگئے تو میاں صاحب
نے اپنے قریبی ساتھی کو لاہور سے ضمنی الیکشن لڑوایا اور الیکشن جتوا کر قومی اسمبلی میں دوبارہ بھیجا مگر انکی اچانک گرفتاری سے جہاں ملکی سطح پر مسلم لیگ ن کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ تھا تو وہی پر خطہ پوٹھوہار کے لیگی ووٹرز کے لیے بھی پریشان کن خبر تھی شاہد خاقان عباسی کی بہت کمی محسوس کی جا رہی تھی یہی وجہ ہے کہ انکی رہائی کی خبر ان کے متوالوں کے لیے خوشی لے کر آئی اور جب انکو اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا تو نہ صرف ان کے آبائی حلقہ مری بلکہ این اے 59 سمیت راولپنڈی کینٹ اور راولپنڈی کہوٹہ شہر روات کلرسیداں سمیت دیہی علاقوں سے بڑی عوام نے انکو خوش آمدید کیا مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی بڑی تعداد نہ صرف اڈیالہ جیل بلکہ اڈیالہ روڈ سمیت راولپنڈی کینٹ کی مخلتف جگہوں پر ان کا استقبال کرتی نظر آئی ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے رہے مسلم لیگ ن راولپنڈی کی قیادت بھی اس موقع پر موجود تھی خاص طور پر انجینئر قمر السلام راجہ اس میں متحرک نظر آئے کیونکہ یہ ان کا حلقہ تھا اس لیے انھوں نے دور دراز علاقوں سے لیگی ووٹرز سے رابطے کیے اور ان کو اکٹھا کر کے اڈیالہ جیل پہنچیں دوسری طرف ملک ابرار راولپنڈی کینٹ سے بڑی تعداد میں عوام کو اپنے ساتھ لے کر اڈیالہ جیل کے باہر موجود رہے جو بعد ازاں راولپنڈی کینٹ میں رہائی پانے والے رہنماو¿ں کو جلوس کی شکل میں لے کر گئے اور بھرپور استقبال کیا گیا سابق امیدوار پی پی 12 فیصل قیوم ملک نے بھی اپنے پبلک سیکرٹریٹ پر ایک بڑا مجمع لگایا اور ثابت کیا کہ نہ صرف اڈیالہ روڈ پر بلکہ پی پی 12 میں مسلم لیگ ن کی بڑی تعداد موجود ہے جو اب مشکل حالات میں بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑی ہے اس کے علاوہ بھی مسلم لیگ ن کے بہت سے رہنماءموجود تھے مگر دلچسپ صورتحال اس وقت دیکھنے میں آئی جب چوہدری نثار علی خان کے قریبی ساتھی بھی شاہد خاقان عباسی کے استقبال میں پیش پیش رہے چوہدری نثار علی خان کے قریبی ساتھی انکے عمائدین جنھوں نے مشکل حالات کے باوجود تاحال انکا ساتھ نہیں چھوڑا تھا بلکہ ان کے کسی بھی فیصلے کے منتظر دکھائی دے رہے تھے چوہدری صاحب کی طرح وہ سب بھی مسلم لیگ ن سے اپنی راہیں جدا کیے بیٹھے تھے اور چوہدری نثار کی طرح خاموش تھے لیکن انھوں نے بھی چپ کا روزہ توڑ دیا اور مسلم لیگ ن کے رہنماو¿ں کو رہائی پر نہ صرف سوشل میڈیا کی حد تک کھل کر مبارکباد دی بلکہ انکا استقبال کرنے کئی لوگ اڈیالہ جیل تک گئے اور کچھ لوگوں نے اڈیالہ روڈ پر انکا پرتپاک استقبال کیا اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان کی سیاست اب کس طرف رواں دواں ہیں کہ ان کے قریبی ساتھی ہی ان سے الگ ہوکر مسلم لیگ ن میں شامل ہو رہے ہیں شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ ن کا ایک بڑا نام ہے کیونکہ پارٹی کے لیے انکی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں انھوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداش کی اور نیب کی طرف سے بنائے گئے کیس میں ضمانت تک کروانے کو تیار نہ تھے یہاں تک کہ انکو پارٹی کی لیڈر شپ کی ہدایت کے بعد ایسا کرنا پڑا انکی رہائی کے بعد مسلم لیگ ن دوبارہ مضبوط ہوگی خاص طور پر پوٹھوہار کی سطح پر مسلم لیگ ن دوبارہ متحرک ہوگی جو آمدہ بلدیاتی الیکشن میں فائدہ مند ہوگا تو دوسری چوہدری نثار علی خان کے قریبی ساتھیوں کا لیگی رہنماو¿ں کا استقبال کرنا بھی اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ انھوں نے اپنی راہیں چوہدری صاحب سے جدا کر لی ہیں کیونکہ چوہدری نثار علی خان کی طویل ترین خاموشی اور بیرون ملک سے خالی ہاتھ واپسی کے بعد انکے عمائدین کے لیے لیگی رہنماو¿ں کی رہائی یہ ایک ایسا موقع تھا کہ وہ مسلم لیگ ن کی چھتری کے نیچے آجاتے اس لیے بہت سے لوگوں نے اس موقع کو غنمیت جانتے ہوئے اس کا فائدہ اٹھایا اور انکا استقبال کرنے پہنچ گئے اور مسلم لیگ ن نے کے رہنماو¿ں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ اب مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں کیونکہ چوہدری نثار علی خان کے عمائدین اور مقامی رہنما شاہد یہ بھی جانتے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن کا دور دورہ آنے والا ہے اور اگر آمدہ بلدیاتی الیکشن میں مسلم لیگ ن اور چوہدری نثار گروپ نے اپنا الگ الگ الیکشن لڑا تو نتیجہ قومی اسمبلی کے نتائج سے مختلف نیں ہوگا اور یہ کامیابی کسی تیسرے یعنی پاکستان تحریک انصاف کے حصے میں آئے گی اس لیے چوہدری نثار کے عمائدین بھی مسلم لیگ ن کے قریب آنا شروع ہوگئے ہیں اب دیکھتے ہیں کہ کیا چوہدری نثار علی خان واقعی اکیلے رہ گئے ہیں یا پھر ان کے عمائدین کا مسلم لیگی رہنماو¿ں کا استقبال صرف استقبال ہی تھا اور وہ اصل میں اب بھی چوہدری نثار کے ساتھ کھڑے ہی ہیں اس سوال کا جواب آنے والے چند دنوں یا ہفتوں بعد ہی پتہ چلے گا لیکن چوہدری نثار پچھلے اڑھائی سالوں میں ہر استقبال سے متاثر ہی ہوئے ہیں میاں نواز شریف کا معزولی کے بعد روات استقبال ہو یا قمر السلام راجہ کی گرفتاری کے بعد ان کے بچوں کا راولپنڈی کچہری میں استقبال ہو اور اب اڈیالہ جیل کے باہر لیگی رہنماو¿ں کا استقبال ہو ان سب استقبالوں نے جہاں کسی کو متاثر کیا ہو یا نہ ہو اس سے چوہدری نثار علی خان ضرور متاثر ہوئے ہیں رہی سہی کسر لندن دورے کی ناکامی نے نکال دی ہے۔
79