چوہدری نثار علی خان کے وفاقی وزیر رہنے کے دور سے اب تک ان کی سیاست کے متعلق ہر وہ بات جسے میں سچ سمجھتا تھا لکھا کرتا تھا اور ہر آنے والے وقت میں وہ بات سچ ثابت ہوئی اگرچہ یہ سچی باتیں کرنے کی مجھے بہت بھاری قیمت بھی چکانا پڑی چوہدری نثار علی خان صاحب جو ہمیشہ خود سچ بولنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن سچ سننے اور براداشت کرنے کا ان کی ذات میں بہت فقدان ہے انھوں نے میری باتوں کو عام آدمی کی آواز سمجھ کر اپنی راہ متعین کرنے کی بجائے ایک مخالف کی بے جا تنقید جانا اور آج وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ان کی سیاست خوشامدی درباریوں سمیت دریائے سواں میں غرق ہو کررہ گئی ہے ان کے شیخ اسلم جیسے ساتھی جو چوہدری نثار علی خان کی سیاست سے پہلے صرف پانچ مرلے کے مکان کے مالک تھے
نثار علی خان کی بے داغ سیاست کی وجہ سے اربوں کے مالک بن گئے شیخ اسلم اور دیگر سیاسی عجوبے اقتدار کے ادروار میں لوگوں پر مقدمات بنا کر سیاست کرتے تھے آج خود مقدمات کا شکار ہوگئے ہیں اب یہ سیاسی عجوبے ووٹ لیتے وقت رات کو سوشل میڈیا پر لوگوں کو دھمکیا ں دیتے ہیں تو صبح ہی مخالف جانب سے منہ توڑ جواب مل جاتاہے یہ مکافات عمل ہے چوہدری نثار علی خان کی طاقت کے زمانے میں ان کے ساتھی ایم پی اے قمر الاسلام راجہ اس شیخ اسلم کے سامنے ہی بے بس تھے علاقے کا کوئی بھی ترقیاتی کام کرنے سے پہلے ایم پی اے قمر الاسلام راجہ کو شیخ اسلم سے اجازت لینا پڑتی تھی لیکن وقت نے پلٹا کھایا اور آج قمرالاسلام راجہ عوام میں کیا پارٹی مقام میں بھی اعلیٰ مقام حاصل کر چکے ہیں قمرالاسلام راجہ کاتعلق متوسط گھرانے سے ہے اسی وجہ سے آپ عوامی مزاج رکھتے ہیں اس کے برعکس چوہدری نثار علی خان سردار ی مزاج کی وجہ سے اب بھی اپنی کرسی کے قریب عام آدمی کی کرسی رکھنے کی بجائے اپنے بیٹے کی کرسی ہی رکھتے ہیں تاکہ یہ تا اثر ابھرے کہ عام آدمی ان سے بہت نچلے درجے کا ہے ڈرا کر ووٹ لینے کے طریقہ کا ر سے اب کی بار بھی چوہدری نثار علی خان کے حامیوں نے پوسٹرز اور بینرز پر چوہدری نثار علی خان کی دوسروں کی طرف انگلی کرنے والی مشہور تصویر ہی لگائی جس سے لوگوں نے ڈرنے کی بجائے واپس ان ہی کی جانب موڑ دیا
مسلم لیگ ن جو چوہدری نثار علی خان کے مزاج سے پوری طرح واقف تھی اس نے ٹکٹ دیتے وقت قمرا ل الاسلام راجہ جیسے شرافت کا مزاج رکھنے والے آدمی کے ساتھ ایم پی اے کیلئے ایک ایسے شخص کو ٹکٹ جاری کیا جو چوہدری نثار کے حامیوں کو ان کے مزاج کے مطابق ہی جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ان حالات میں چوہدری نثار کے ساتھیوں کا عوام پر دباؤ بھی نہ چل سکا کیونکہ انھیں فوراً دوسری جانب سے جواب مل جاتا جس سے وہ بھیگی بلی بننے کے سوا کچھ نہ کر پاتے دبدبے کے علاوہ چوہدری نثار علی خان بنیادی طور پر گیٹ نمبر چار کی پیدوار تھے جس کااعلان وہ اپنے اقتدار کے اوقات میں اکثر جلسوں میں کرتے رہتے تھے عام ووٹر کو وہ اکثر کہہ دیتے تھے کہ انھیں عوام کی ووٹوں کی ضرورت نہیں وہ بہت اعلیٰ مقام پر ہیں لہٰذا انھیں ووٹ نہ دینے کا ڈراوا نہ دیا کریں یہ بات کرتے وقت بھی اپنے منصب کا خیال رکھے بغیر ایسے دیسی الفاظ کاا ستعمال کرتے جنہیں تحریر میں ہی نہیں
لایا جا سکتا
گیٹ نمبر چار کی سیاست کا تاثر دینے کیلئے چوہدری نثار علی خان نے گذشتہ الیکشن میں جیپ کا انتخابی نشان لیا جس پر انھیں باقی جگہ تو ناکامی ہوئی لیکن صوبائی اسمبلی کی ایک نشست لینے میں کامیاب ہوگئے اتنا دھچکا لگنے کے باوجود طاقت کانشہ نہیں اترا تھا اور صوبائی اسمبلی میں جانا ہی توہین سمجھالیکن جب حلف کا قانون بنا تو اپنا تھوکا ہوا چاٹنے کے اپنے ہی دعوے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف حلف اٹھانے کی حد تک ہی اسمبلی گئے عوامی رویہّ یہ تھا کہ اپنے ساتھیوں کے گھروں میں جواں سال اموات ہوئیں تو انھیں کمی کمین سمجھتے ہوئے ان کے گھروں میں جانا تو درکنا ر عام حالات میں بھی تعزیت کا اظہار نہ کیا اپنے پیاروں کے داغ مفارقت سے دوچار ہونے والے کئی ساتھی دلبرادشتہ ہو کر چوہدری نثار علی خان کا ساتھ چھوڑ گئے لیکن تکبر کا نشہ اب بھی نہ اترا اور چوہدری صاحب نے اس بار بھی اکیلے جیت کر جانے کا دعویٰ کیا کیونکہ ان کے خیال میں انھوں نے ترقیاتی کاموں میں علاقے کی بہت خدمت کی تھی لیکن تحریک انصاف کی حکومت کا گذشتہ دور میں بننے والا جوڑیاں ہسپتال ان کے پینتیس سالہ دور کے بعد علاقے کی پہلی صحت کی سہولت تھی یہ ان کے دعوے پر طمانچہ تھا جو سوشل میڈیا کے ذریعے بار بار لگتا رہا چوہدری نثار علی خان تمام زندگی میاں نواز شریف کا ساتھ دینے کا اکثر دعویٰ کرتے تھے حالانکہ جب بھی میاں نواز شریف پر مشکل وقت آیا انھوں نے پیٹھ دکھائی اور یہی ان کی نواز شریف سے علٰحٰیدگی کا سبب بنا
وفادرای کا جب تقابل ہوا تو چوہدری نثار علی خاندان کے راجپوت الپیال قبیلے سے ہی تعلق رکھنے والے کرنل (ر) اجمل صابر راجہ پی ٹی آئی کی جانب سے ان کے مخالف امیدوار تھے جن کی وفاداری کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے آٹھ مرتبہ جیل جانے کے با وجود عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑا جس کا چوہدری نثار علی خان کی جانب سے سوچا بھی نہیں جا سکتا کرنل(ر) اجمل صابر راجہ صرف دلیر ہی نہیں شریف النفس، مالی طور پر مستحکم اور ایماندار شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی بھی ہیں افواج پاکستان سے ریٹائرڈ ہونے کے باوجود گیٹ نمبر چار پر انحصار کرنے کا مزاج نہیں رکھتے ان کے ہمراہ ایم پی اے کیلئے پی ٹی آئی کے چوہدری محمدامیر افضل ایک شریف االنفس، پابند صوم و صلوٰۃ اورعوامی مزاج کے سیاستدان ہیں ان کا تعلق چک بیلی خان سے ہے چک بیلی خان کو تحصیل کا درجہ دلوانے سمیت محرومیوں کا شکوہ چک بیلی خان کے علاقے کے عوام کو سیاستدانوں کے ساتھ پہلے سے ہی تھا اور چوہدری نثار علی خان کا پینتیس سال تک اقتدار پر رہنے کے باوجود اس مطالبے سے انکار ان پر اس شکوے کا بوجھ زیادہ ڈالتا ہے
چوہدری محمد امیر افضل کا تعلق چک بیلی خان سے ہونا اور اپنے منشور میں چک بیلی خان تحصیل کے درجے کو پہلی ترجیح میں رکھنے کی وجہ سے لوگوں کی ہمدردیاں ان کی پارٹی کے ساتھ زیادہ ہوئیں جس کا چوہدری نثار علی خان کو مزید نقصان ہوا ان تمام حالات کی وجہ سے چوہدری نثار علی خان کی سیاست جسے الیکشن سے قبل کئی درباری ولالچی مزاج صحافی اور عام آدمی دبنگ انٹری کا نام دے رہے تھے وہ سیاست ختم ہو کر رہ گئی ہے چوہدری نثار علی خان کی اب نہ صرف یہ کہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ بھی ختم ہو گئی ہے بلکہ سیاست ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے
اب تو دوسری پوزیشن والا امیدوار بھی اگر پیچھے مڑ کے دیکھے تو چوہدری نثار علی خان نظر ہی نہیں آتے اب الیکشن جلد ہوں یا دیر سے چوہدری صاحب اپنی ضمانت بھی ضبط کروا بیٹھیں گے مجھے تو یہ نظر آ رہا ہے کہ چوہدری صاحب کی نسلیں بھی مشکل سے ہی کامیابی کا منہ دیکھیں گی کیونکہ آج کل انفارمیشن کا دور ہے اور یہ گذرا ہوا وقت صرف تحریر میں ہی نہیں بلکہ وڈیوز کی شکل میں بھی آئندہ نسلوں تک پہنچے گا آئندہ جیپ کا دھوکہ اور عمران خان کا دوست ہونے کا چورن بھی نہیں بک سکے گا عمران خان کی دوستی مشکل وقت میں جتنی کرنل (ر) اجمل صابر نے نبھائی ہے چوہدری نثار علی خان اس کا سوچ بھی نہیں سکتے سیاست کی وراثت میں منتقلی کی بات کی جائے تو تیمور علی خان جہاں باپ کے بوئے ہوئے کو کاٹیں گے