امجد محمود ستی
انتخابات وقت پر ہوتے ہیںیا نہیں اس بارے قیاس آرائیں ہو رہی ہیں مگر نگران وزیراعظم کے متوقع اعلان کے ساتھ ہی یہ افواہیں دم توڑ جائیں گی میاں نواز شریف کو اب یقین ہو گیا ہے کہ انہیں کوئی خفیہ ہاتھ پجا نہیں سکتا اورکنفرم نظر آرہاہے کہ الیکشن سے قبل وہ جیل جائیں گے جس کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ جیل میں صفائیاں ہو رہی ہیں جیل پنجاب میں آتی ہے یقیناً جیل کی صفائی تو ان کے چھوٹے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب ہی کروا رہے ہیں۔میاں نواز شریف کے جیل جانے کے بعدمسلم لیگ ن کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا اصل امتحان شروع ہو گا کہ کیا وہ پارٹی کو منظم رکھ سکتے ہیں یا پارٹی کا شیرازہ بکھر جائیگا کیونکہ ان دنوں مسلم لیگ ن کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ایک طرف آصف علی زرداری کی سیاسی چالیں ،دوسری طرف عمران خان کا عوامی پریشر جبکہ اس کے ساتھ ساتھ سرائیکی صوبہ محاذ کا دباؤ جبکہ موجودہ حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی فصلی بٹیروں کی طرف سے اڑان بھی شہباز شریف کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوگا اور اس سے بھی بڑا چیلنج چوہدری نثار علی خان کی ناراضگی بھی شامل ہے کیونکہ شہباز شریف چوہدری نثار علی خان کی میاں نواز شریف سے صلح کی متعدد کوششیں کر چکے ہیں مگر نواز شریف چوہدری نثار سے صلح کیلئے تیار نہیں ہیں جس کی بڑی وجہ چوہدری نثار کی مریم نواز پر تنقید اور چوہدری نثار کی طرف سے اداروں کے حوالے سے نرم رویہ ہے اگر چوہدری نثار علی خان الیکشن سے قبل مسلم لیگ ن سے اپنی راہیں جدا کرتے ہیں تو ایسے میں راولپنڈی ڈویژن سے ن لیگ کو ایک بڑا دھچکا لگے گا جس کا تمام تر فائدہ پی ٹی آئی کو ہوگا۔کچھ سیاسی نادان نواز شریف کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ چوہدری نثار کے جانے سے صرف چوہدری نثار کی سیٹ ہی جا سکتی ہے مگر چوہدری نثار کا راولپنڈی کی سیاست میں ایک بڑا نام ہے اور مقتدر حلقوں میں چوہدری نثار ایک بڑا اچھا اثررسوخ رکھتے ہیں راولپنڈی کی سیاست چوہدری نثار علی خان کے اردگرد ہی گھومتی ہے ۔ذرائع کے مطابق چوہدری نثار کی ناراضگی کے دوران چوہدری نثار کے سیاست حریفوں سرور خان اور راجہ بشارت کو مسلم لیگ ن میں شمولیت کی دعوت دی گئی مگر ان نے سیاسی حریف ہوتے ہوئے بھی بڑے پن کا مظاہرہ کیا اور لیگی قیادت کی پیشکش ٹھکرا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ راولپنڈی کے سپوت ہیں اور پیٹھ پیچھے وار نہیں کرتے دوسری طرف شہباز شریف کے خلاف بھی ماڈل ٹاؤن کیس اوپن ہو چکا ہے جس کے بعد ان کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان دنوں ظاہری طور پر نظر نہ آنے والی دیرینہ مریم نواز اور حمزہ گروپ کی لڑائی بھی پارٹی کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ موجودہ سیاسی موسم مسلم لیگ ن کیلئے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں مگر میاں نواز شریف کے جیل جانے پر مسلم لیگ ن ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کریگی ۔آمدہ الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم کے سلسلہ میں مسلم لیگ کو شدید دشواریوں کا سامنا ہوگا کیونکہ اس مرتبہ مریم نواز گروپ ٹکٹوں کی تقسیم اپنی مرضی سے کرنا چاہتا ہے جبکہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی اپنا استحقاق استعمال کرنے کے خواہاں ہیں جس کی وجہ سے پارٹی میں بغاوت سر اٹھا سکتی ہے۔گزشتہ دنوں پیپلزپارٹی پنجاب کے سابق جنرل سیکرٹری ندیم افضل چن نے عمران خان کے ہاتھ پر بعیت کرلی ہے اور آمدہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں اکثریت پیپلزپارٹی کے لوگوں کی ہے پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اپنی پالیسیوں پر غور و غوض کرنا ہوگا اور ماضی کی
غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا حقیقی جیالے نہ سہی مگر ایسے لوگوں کو پارٹی میں شامل کیا جائے جو مشکل وقت میں ساتھ نہ چھوڑیں جیسے پیپلزپارٹی میں مرکزی حیثیت رکھنے والے نواز کھوکھر اور ان کے صاحبزادے مصطفیٰ نواز کھوکھر ہیں جن نے پیپلزپارٹی کو اس مشکل ترین دور میں بھی سہارا دیا جب پارٹی کو ان کی ضرورت تھی اور یوم تاسیس کے موقع پر ہزاروں کی تعداد میں جلسہ کر کے مخالفین کی حیران کردیا اور جلسہ سے اگلے دن ہی سی ڈی اے لیبر یونین کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے پینل نے14سال بعد کامیابی حاصل کی تھی۔پنجاب میں ن لیگ کو پی ٹی آئی ٹف ٹائم دیگی کیونکہ گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے پاس اتنے مضبوط امیدوار نہیں تھے جتنے اس الیکشن میں ہیں مگر پی ٹی آئی کی اندرونی جنگ اسے لے ڈوبے گی ہر حلقے میں دو ،تین امیدوار ہیں اور عمران خان نے ابھی تک پارٹی ٹکٹوں کا اعلان نہیں کیا جس کی وجہ سے الیکشن میں حصہ لینے والوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ جبکہ پیپلزپارٹی جہاں ماضی میں کھڑی ہوتی تھی وہاں آج مسلم لیگ ن کھڑی ہے اور ن لیگ کی ماضی کی جگہ پر پیپلزپارٹی کھڑی نظر آتی ہے۔
110