آخر کار وزیراعظم صاحب کی غیر موجودگی میں پہلا بجٹ پیش ہو ہی گیا۔اس بجٹ میں جہاں اور بہت سے غریب نواز منصوبے بنے وہاں ایک احسان مزدور پر بھی کر دیا گیااور وہ احسان یہ ہے کہ مزدور کی اجرت 13000 روپے بڑھا کر 14000 روپے کر دی گئی۔موجودہ غریب نواز حکومت نے مزدور پر یہ اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ جس کا بدلہ مزدور عمر بھر ادا نہیں کر سکتابجٹ مرتب دیتے وقت سرکار نے مزدور کی ضروریات کو تو زرور مدنظر رکھا ہو گا۔اس لیے ہی تو مزدور کی اجرت 14000 روپے قرار پائی،جہاں مزدور کی ضروریات کا تعلق ہے تو وہ تو نہ ہونے کہ برابر ہیں۔مزدور کو ہسپتال وغیرہ جانے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ ایک غریب آدمی کہاں ہسپتال کے اخراجات برداشت کر سکتا ہے ۔اور سرکاری ہسپتالوں میں تو ذلت کے سوا اورکچھ نہیں ہے۔اور اگر ذلیل ہونے کے بعد کوئی دوائی مل بھی جائے تو اس کو کھا کر وہ مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتاہے۔اس لیئے غریب مزدور ہسپتال جانے کے بجائے گھر بیٹھ کر کچھ دن اذیت برداشت کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
اگر مزدور کے کھانے پینے کا ذکر کیا جائے تو یہ بات بھی سچ ہے کہ غریب مزدور کا شروع سے ہی لذت سے جھگڑا ہے۔لذت تو دور کھانے کے کہ لیے بھی اگر کچھ میسر آ جائے تو مزدور اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ۔مزدور نے کبھی رات کی روٹی کھائی تو کبھی فاقہ کیا کبھی پیٹ پر پتھر باندھ کر کام کیا تو کبھی پتے کھا کر کیا۔لیکن پھر بھی دن بھر مشقت کی تاکہ 14000 کما سکے۔سرکارکو کسی کے فاقوں سے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ
پریشان اگر قحط سے ایک جہاں ہے
تو بے فکر ہیں کیونکہ گھر میں سماں ہے
اس کے علاو ہ اگر کوئی مزدور کا بچہ آ سے آ م اور س سے سیب پڑھے تو وہ حسرت بھری نگاہوں باپ کی طرف دیکھ کر اس سے پیلے اور سرخ رنگ کی بلا کے بارے میں پوچھتا ہے کیوں کہ مزدور آدمی کو پھلوں سے بھی نہیں لگتی۔اس کے جسم کو پروٹین اور وٹامنز کی ضروریات نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی چیز کی۔یہ چیزیں تو امیروں کے لیے صحت بحش ہیں۔اور اگر غلطی سے ہی کوئی مزدور پھل یا گوشت خرید لے تو ان کی قیمتیں سن کر ہی غریب مزدور ہارٹ اٹیک یا کم از کم ڈپریشن زرور ہوتا ہے۔اس لیے غریب نواز حکومتیں ایسے قوانین بناتے ہیں۔جس سے نہ مزدورپھل وغیرہ خریدنے جائے اور اس کی صحت کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔اور ہمارے ملک کا دستور یہ ہے کہ عوام غریب ترین اور حکمران امیر ترین یہاں کا قانون یہ ہے کہ مزدور کا بچہ مزدور اور حکمران کا بچہ حکمران اور سیاستدان کا بچہ سیاستدان ہی ہو گا ۔حکمرانوں کی امیری کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی عام آدمی حکمرانوں کہ وسیع و عریض محلات اور عالیشان دسترخوان دیکھ لے تو ہوش و حواس ہی کھو بیٹھے۔پاکستانیوں کو تو چھوڑیں کئی مرتبہ تو امیر ملکوں کے سربراہان بھی ان محلات کی تاب نا لا سکے۔اور وہ اس بات پر بھی شبہ کرنے لگتے ہیں کہ کیا پاکستان واقع ایک پسماندہ ملک ہے۔
2010 میں جب سیلاب آیا تب ہالی ووڈکی اداکارہ انجلینا جولی سیلاب متاثرین کی مدد کرنے پاکستان آئی توعالیشان وزیراعظم ہاوس دیکھ کر انجلینا حیران رہ گئی جب انہوں نے ان گنت تحائف دیکھے جو ان کو پیش کیے گئے تو ان کے تو ہوش ہی اڑ گئے انجلینا اور باقی حکمرانوں کہ لئے شاہی دسترخوان پر انواو اقسام کے کھانوں کے انبھار لگا دےئے گئے۔ انجلینا نے ذاتی طور پر پچاسی لاکھ روپے سیلاب متاثرین کو دیئے اور جاتے ہی اقوام متحدہ سے سفارش کی کہ پاکستانی حکمرانوں سے کہا جائے کہ وہ د نیا سے مدد مانگنے سے پہلے اپنے شاہانہ اخراجات کم کریں۔اس کے بعد شاہانہ اخراجات کتنے کم ہوئے جاننے والے خوب جانتے ہیں۔حکومتیں بدلی لیکن شاہانہ اخراجات کو کسی نے بھی کم کرنے کی کوشش نہیں کی دراصل پاکستان کو اگر ایک سیاستدان ہسٹری چور ملا تو دوسرا بیکری چور ملا ہر کوئی اپنے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے۔غریب مزدور چاہے قحط سے مرے ہسپتالوں میں علاج کی سہولت نہ ہونے کہ باعث مر جائے کیونکہ حکمران کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔کیونکہ ایک سیاستدان اگر دبئی میں زیر علاج ہے تو دوسرا لندن میں۔ انہیں مزدور کی کوئی پروا نہیں۔شاہد حکمرانی کا نشہ ہی ایسا ہے۔ایسا اس غریبی کی وجہ سے بہت سے والدین اپنے بچوں ک ساتھ خدکشی کر لیتے ہیں۔کچھ نے زہر کھا لیا تو کسی نے ندی میں چھلانگ لگا دی یہ کہانی برسوں پہلے شروع ہوئی اور آج بھی جاری ہے۔{jcomments on}