چنگا بنگیال گرلز کالج کا سنگ بنیاد قابل تحسین عمل 172

چنگا بنگیال گرلز کالج کا سنگ بنیاد قابل تحسین عمل

کسی دانا کا قول ہے کہ ہر روز اپنے ضمیر میں جھانک کر اپنی خطاؤں کو درست کر لیا کرو اگر تم اس میں ناکام رہے تو اپنی عقل اور علم سے دغا کرو گے ہم انسانوں میں ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ ہم بات کو اس کی اصل حالت میں بیان نہیں کرتے بُری بات کو زیادہ بُری بنا کر اور اچھی بات کو زیادہ اچھی بنا کر لگی لپٹی کے ساتھ پیش کرنا اب ہماری فطرت میں شامل ہوچکا ہم زبان کھولتے ہیں اور بولتے ہیں تو سانسوں کی ترازو میں اپنا گھاٹا تولتے ہیں کیونکہ ہم حقائق کو اس کی روح کے مطابق بیان نہیں کرتے بعض اوقات جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا آنکھوں میں دھول جھونکنا ایک عام محاورہ ہے جسے آپ نے اکثر پڑھا بھی ہوگا اور لکھا بھی ہوگا لیکن اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا کسی کسی کے حصے میں آتا ہے۔موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں ہر خاص وعام کو یہ مظاہرہ روزانہ کی بنیاد پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔کیا مرکزی سطح پر کیا صوبائی سطح پر آنکھوں میں دھول جھونکنے کا عمل جاری ہے۔ ساڑھے تین سالہ دور میں گذشتہ دور کے پروجیکٹس پر اپنی تختیاں لگا کر انہیں اپنا کارنامہ قرار دینا آنکھوں میں دھول جھونکنا ہی کہا جاسکتا ہے۔گذشتہ روز حلقہ پی پی 8 سے تحریک انصاف کے منتخب ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر کے ہاتھوں چنگا بنگیال کے مقام پر گرلز کالج کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔علاقہ کے لیے گرلز کالج کی تعمیر یقیناً ایک تحفہ قرار دیا جاسکتا ہے جہاں علاقے کی بچیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوسکیں گی۔کالج کے لیے فنڈز جاری کروانا چوہدری جاوید کوثر کے کریڈٹ پر ہے اور اس کے لیے وہ تعریف کے لائق ہیں سنگ بنیاد کی اس تقریب میں تحریک انصاف کے حلقہ پی پی 9 سے منتخب ممبر کی جانب سے خطاب میں چوہدری جاوید کوثر کی جو تعریف کی گئی وہ بھی لائق تحسین کہی جاسکتی ہے۔ لیکن اس موقع پر اس پراجیکٹ کو منظور کروانے والے سابق ایم پی اے چوہدری افتخار وارثی کے حوالے کہی جانے والے طنزیہ باتیں کسی طور مناسب نہیں تھیں سنگ بنیاد رکھنے والوں کو بھی یہ اچھے سے علم ہے کہ اس کالج کی منظوری 2016 میں ہوئی جس کے لیے فنڈز بھی مختص کردئیے تھے بدقستمی یہ رہی کہ پارٹی کے اندر سے ہی اس پروجیکٹ پر سوال اُٹھاتے ہوئے اس قانون کی آڑ لی گئی جس کے تحت ایک کالج کی موجودگی میں دس کلومیٹر کے ایریا میں کوئی دوسرا کالج تعمیر نہیں کروایا جاسکتا۔اس پوائنٹ پر کالج کے فنڈز فریز ہوئے تاہم افتخار وارثی کی جانب سے گوجر خان وکلر سیداں کو چنگابنگیال سے گیارہ کلو میڑو دوری پر ثابت کرتے ہوئے پروجیکٹ کو دوبارہ بحال کروایا گیا۔اس کوشش میں کافی وقت صرف ہوگیا۔فنڈز کے اجراء کی کوشش کے دوران الیکشن 2018 شروع ہوئے اور تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار آگئی۔خطاب میں افتخار وارثی پر گھر میں سوتے رہنے کا طنز کرنے والے موصوف یہ بات بھول گئے کہ چوہدری جاوید کوثر نے اگر مسلسل شکستوں کے بعد اس نشست پر کامیابی حاصل کی ہے تو اس کا سہرا بھی افتخار وارثی کے سر ہے۔جن کی مکمل سپورٹ وحمایت سے ہی چوہدری جاوید کوثر فتح یاب ہوئے۔ان کی موجودگی میں ان کے محسن پر طنز ہونا اور ان کا خاموش رہنا افسوسناک امر ہے۔کوئی ریت کے محل خواہ کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ بنا لے لیکن مضبوطی کے نام پر مذاق ثابت ہوتے ہیں۔ چوہدری افتخار وارثی گوجر خان کی سیاست میں وہ واحد کردار ہیں جو اپنے ناقدین کو جواب دینا بھی پسند نہیں کرتے۔کیونکہ ان کے نزدیک صبر‘ہمت اور کردار ہی سب سے اہم چیز ہیں۔وارثی صاحب ٹھنڈے مزاج کے صلح پسند انسان ہیں۔بات کتنی ہی ناپسندیدہ ہو ان کے چہرے پر برہمی یا پریشانی دیکھائی نہیں پڑتی وہ سمجھتے ہیں کہ احساس اور رشتوں کا احترام اور ان کی پاسداری ہی زندگی کو خوبصورت بناتی ہے چنگا بنگیال کالج پر ہونے والی سیاست اور اس سلسلے میں تواتر سے بولے جانے والے جھوٹ سننے کے باوجود افتخار وارثی نے بیان جاری کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔کیاہی اچھا ہوتا کہ چوہدری جاوید کوثر سنگ بنیاد رکھنے کی اس تقریب میں افتخار وارثی کی کالج پروجیکٹ کی منظوری کے حوالے سے جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے تو ان کا سیاسی قد مزید بڑھتا لیکن وہ ایسا نہ کرسکے۔کریڈیٹ ضرور لیں کہ کریڈیٹ بنتا بھی ہے۔لیکن جس نے منصوبے کی منظوری لی اس کا کریڈیٹ چوری نہ کریں کہ تاریخ تو لکھی جاچکی ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں