یونین کونسل ساگری کی معروف سیاسی وسماجی چوہدری افتخار گزشتہ دنوں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے عارضی دنیا سے ابدی دنیا کی جانب چلے بسے انہوں نے زندگی میں سیاست اور کاروبار کو ساتھ ساتھ چلائے رکھا ہر دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنے نصب العین بنائیگا انکی زندگی کے بارے ایک تحریر ایک سال قبل ہفت روزہ پوٹھوہار نیوز میں شائع ہوئی جو قارئین کی نظر کی جارہی ہے۔ چند سال پہلے بڑوں کا حکم چلتا تھا اور دھڑوں کی سیاست پھر اچانک تبدیلی آ گئی ایسی تبدیلی کہ چھوٹوں نے اپنے فیصلے خود کرنے شروع کر دیئے بڑے اور دھڑے منہ دیکھتے رہ گئے کچھ عرصہ پیچھے چلتے ہوئے روات اور اس کے گردونواح کی یونین کونسلوں کی سیاست کا جائزہ لیجئے مرزا آزاد مرحوم، راجہ پرویز، راجہ علی زمان، چودھری حنیف، چودھری جمیل، ملک محبت اور چودھری افتخار احمد کیا کمال کے لوگ تھے کہ ایک دوسرے سے فاصلے پر رہنے کے باوجود دل و دماغ سے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے جڑے رہے کہ ہر سیاسی فیصلہ باہمی مشاورت سے ایسے کیا کہ جس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا جیت کو اس کا مقدر بنا دیا انہی بڑے لوگوں میں سے آج ہم جاننے کی کوشش کرینگے چودھری افتخار احمد المعروف چیئرمین افتخار کی شخصیت کو کہ جن کا تعلق یونین کونسل ساگری کلاں کے مشہور قصبے چھنی عالم شیرسے ہے ان کے دادا چودھری جیون خان زمیندار تھے اور ان کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے والد چودھری فضل الٰہی پہلے تو پٹواری کی حیثیت سے سرکاری ملازم رہے پھر ریٹائرمنٹ کے بعد زمینداری اور سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ڈسٹرکٹ بورڈ کے الیکشن میں حصہ لیا مگر کامیابی مقدر نہ بن سکی البتہ ایوب خان کے دور میں کونسلر منتخب ہونے میں کامیاب ہو کر گاؤں اور علاقے کی خدمت کی 1964ء میں اپنی وفات سے پہلے سیاسی جوڑ توڑ اور رکھ رکھاو کے طور طریقے وراثت میں اپنے صاحبزادے چودھری افتخار احمد کے سپرد کر گئے وہ چودھری افتخار احمد جس نے اپنی پرائمری تک کی تعلیم اپنے آبائی گاؤں چھنی عالم شیر کے اسکول سے حاصل کرنے کے بعد ساگری کے ہائی اسکول کا رخ کیا اور وہاں ماسٹر طارق چودھری لوہدرہ والے جو بعد میں ممبر صوبائی اسمبلی بھی بنے،ماسٹر فضل کریم، ماسٹر فضل الرحمن راجہ، قاضی غلام سبحانی، قاضی عزیز الرحمن اور ماسٹر محمد حسین جیسے قابل اساتذہ کرام سے فیض یاب ہوئے مگر چوں کہ تعلیم میں کچھ خاص دل لگتا نہ تھا اس لئے جلد ہی بے زار ہو کر اپنی توجہ تعلیم کے بجائے زمین داری کی طرف لگا دی مال مویشی سے انسیت وراثت میں ملی تھی چنانچہ پہلے تو بیلوں کے ساتھ کھیتی باڑی کرتے رہے بعد میں ٹریکٹر کے ذریعے بھی کاشت کاری کا شغف جاری رکھا اسی دوران حکومت وقت کو بلدیاتی انتخابات کی سو جی دوست احباب اور برادری سے مشاورت کے بعد جوان چودھری صاحب نے لنگوٹ کسا اور انتخابات کے میدان میں بحیثیت کونسلر چھلانگ لگا دی اثر و رسوخ، میل جول اور پیار محبت کے رعب نے کسی دوسرے امیدوار کو یہ ہمت ہی نہ دی کہ وہ مقابلہ کے لئے میدان میں اترتا چنانچہ چودھری افتخار احمد بلا مقابلہ ہی کونسلر منتخب ہو گئے مگر ایک دریا پار کرتے ہی سامنا دوسرے دریا سے ہوا کہ ان کے گروپ لیڈر راجہ شاہد ظفر نے فیصلہ سنا دیا کہ چودھری افتخار احمد ان کے گروپ کی جانب سے یونین کونسل ساگری کے چیئرمین کے عہدے کے لئے امیدوار ہوں گے مقابلہ تھا منجھے ہوئے سیاسی خانوادے کے چشم و چراغ سیٹھی عبدالمجید سے مگر جوڑ توڑ کے ماہر چودھری افتخار احمد نے ایسا پلٹا مارا کہ چھ چار سے میدان مار کر چیئرمین یو سی ساگری بن گئے وہ دن اور آج کا دن کہ چئیرمین ان کے نام کا حصہ بن گیا اور وہ چودھری افتخار سے زیادہ چیئرمین افتخار کے نام سے پہچانے جاتے ہیں اپنے پہلے چار سالہ دورے چیئرمینی میں آپ اپوزیشن کو ایسے ساتھ لے کر چلے اور میسر وسائل سے مل جل کر باہمی مشاورت سے ایسے کام کیئے جو مثال بن گئے اگلے بلدیاتی انتخابات میں لازم ٹھہرا کہ چیئرمین افتخار پھر حصہ لیں اور تب بھی کسی دوسرے امیدوار نے مقابلہ میں اترنا مناسب نہ سمجھا یوں چیئرمین افتخار ایک بار پھر بلا مقابلہ کونسلر منتخب ہو گئے مگر اب کی بار آپ اپنے مخالف سیٹھی عبدالمجید سے چیئرمین کا الیکشن ہار گئے دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن ضرور ہارے مگر ہمت نہیں پہلے ہی دن سے مخالف سے بدلہ لینے کے لئے جوڑ توڑ شروع کر دیا اور بالآخر تحریک عدم اعتماد کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اسی دوران سیٹھی عبدالمجید کے بارے میں اطلاع ملی کہ وہ شدید بیمار ہو گئے ہیں تیمارداری کے لئے پہنچے ان کی کیفیت دیکھی اور رواداری کی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ جب تک سیاسی مخالفت مکمل صحت یاب نہیں ہو جاتا اس پر وار نہیں کرنا خدا کی کرنی یوں ہوئی کہ سیٹھی عبدالمجید اللہ کو پیارے ہو گئے اور چودھری افتخار احمد دوسری بار بلا مقابلہ چیئرمین یو سی ساگری منتخب ہو گئے سلسلہ یونہی چلتا رہا دھڑا قائم رہا تیسرے انتخابات میں اس دھڑے نے اپنا سارا وزن ساگری والے سجاد بٹ کے پلڑے میں ڈالا اور انہیں چیئرمین بنا دیا جب کہ چیئرمین افتخار خود ممبر ضلع کونسل منتخب ہو گئے غرض ”جدھر گئیاں بیڑیاں ادھر گئے ملاح“ کے مصداق علاقے کا یہ بااثر دھڑا جس طرف چلا وہی سکندر ٹھہرا کبھی نثار بیگ کے روپ میں تو کبھی بابو چودھری غضنفر اقبال کی صورت میں آج گو کہ دھڑے کی سیاست آخری سانسیں لے رہی ہے مگر چیئرمین افتخار کا دھڑا تاحال قائم ہے لیکن 2مئی بڑے دل کے مالک چوہدری افتخار کے دل کی دھڑکن آہستہ ہوئی وہ اس سے قبل بھی دل کی تکلیف میں مبتلا تھے لیکن اس بار دل کی تکلیف نے انکو مزید سانسوں کی مہلت مہ دی اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے انکی نمازہ جنازہ میں ضلع بھر سی سیاسی سماجی اور مذہبی شخصیات نے شرکت اور تعزیت کا سلسلہ تاحال جاری ہے آہوں اور سسکیوں میں انکو سپرد خاک کردیا گیا۔
187