271

پی ڈی ایم اتحاد کا شیرازہ بکھیر گیا

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اپوزیشن جماعتوں نے ایک اتحاد قائم کیا اور موجودہ حکومت کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف جدو جہد کا عزم کیا لیکن بعد میں یہ اتحاد اختلاف میں تبدیل ہو گیا اور اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ گیارہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد نہیں اختلاف ہے۔ کیونکہ اس اتحاد میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نظریات، مفادات اور وابستگیاں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ تمام سیاسی جماعتیں ماضی قریب میں ہی ایک دوسرے کی شدید حریف رہی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف انتخابات میں حصہ لیتی اور ہر وہ طریقہ اختیار کرتی رہی ہیں جو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کرتی ہیں یا شاید اس سے بھی بڑھ کر۔ اب یہ سیاسی اتحاد نام کی کوئی چیز ان جماعتوں نے قائم کر رکھی ہے اور بظاہر اس کا کوئی اور مقصد نظر نہیں آتا سوائے اس کے کہ یہ اتحاد پانچ سال کا عرصہ گزارنے کا ایک طریقہ ہے جو اقتدار سے محروم سیاسی جماعتوں نے اختیار کر رکھا ہے اور عوام کو بے وقوف بنا کر جیسے تیسے پانچ سال پورے کر رہے ہیں۔ سینٹ انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کو کامیاب کرنے کے سوا اس اتحاد نے اپنا بھی کوئی مفاد حاصل نہیں کیا اور انہیں بھی جس طرح کامیاب کیا وہ بھی قوم کے سامنے ہے کہ اس میں اس اتحاد کا کتنا کردار تھا اور دولت مند اور لالچی سیاستدانوں نے کتنا کردار ادا کیا؟تقریباً گزشتہ اڑھائی سال کے عرصے میں یہ اتحاد اکثریت کے باوجود ہر موقع پر ناکام ہی نظر آیا اور اس میں شامل سیاسی جماعتیں اپنی چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر موومنٹ کے فیصلوں کے خلاف عمل دکھائی دیتی ہیں یا بڑی جماعتیں من مانی کرتی نظر آتی ہیں۔ اس اتحاد میں شامل جماعتوں کو ایک دوسرے سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور دوسری جماعت کے رہنماؤں کو آگے بڑھتا ہوا بھی نہیں دیکھ سکتے۔ مولانا فضل الرحمن اس اتحاد کا محور ہیں اور وہی واحد شخص ہیں جو اس اتحاد کو کسی نہ کسی شکل میں قائم رکھے ہوئے ہیں اگر وہ اس اتحاد سے ہاتھ کھینچ لیں تو یہ نام نہاد ڈیموکریٹک موومنٹ صفحہ ہستی سے مٹ جائے لیکن مولانا چونکہ کافی مصلحت پسند ہیں اس لیے وہ اس اتحاد کو لے کر چل رہے ہیں۔ پہلے بھی کئی مرتبہ مولانا اس اتحاد سے تنگ آئے لیکن اتحاد میں شامل بڑی جماعتیں پھر انہیں منا لیتی ہیں اور وہ مان بھی جاتے ہیں۔ میرے اس ڈیموکریٹک موومنٹ کو پسند نہ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ یہ موومنٹ ماضی کے کرپٹ سیاستدانوں پر مشتمل ہے، جو برائیاں موجودہ حکومت میں ہیں ماضی کے یہ تمام سیاستدان ان میں ملوث رہے ہیں، اگرچہ موجودہ حکومت نے کچھ زیادہ ہی ریکارڈ قائم کر دیے ہیں لیکن گزشتہ حکمران بھی کوئی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں تھے۔ وہ سب اپنے اپنے مفادات کے لیے ہر غلط قدم اٹھاتے رہے، اب موجودہ حکومت کے خلاف اکٹھے ہونے کا ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ جس میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن پہلے بھی ان جماعتوں کی حرکتوں سے دلبرداشتہ ہو کر اسے چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے تھے لیکن ایک بار پھر ان کی یقین دہانیوں پر مولانا صاحب نے اس اتحاد کو برقرار رکھا مگر اب پھر وہ وقت آچکا ہے کہ مولانا پی ڈی ایم کی پریس کانفرنس ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ ان جماعتوں سے اب تک کوئی بھی بڑا فیصلہ نہیں ہو سکا نہ ہی کوئی مؤثر لانگ مارچ کر پائے ہیں اور نہ ان سے استعفوں کے بارے میں کوئی فیصلہ ہو سکا ہے۔ یہ اسی طرح کبھی اختلاف اور کبھی اتفاق کھیلتے کھیلتے پانچ سال پورے کر دیں گے لیکن ان سے کوئی صحیح فیصلہ نہیں ہو پائے گا۔ بس عوام کا وقت ضائع کرنے کے سوا یہ کچھ نہیں کر رہے، پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے مطالبات کر رہی ہے اور مسلم لیگ، پیپلز پارٹی سے۔ نہ وہ ان کے مطالبات پورے کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی یہ ان کے۔ انہی آپس کے مطالبات کے چکر میں پی ڈی ایم جو کہ ایک اتحاد تھا وہ اختلاف میں تبدیل ہو چکا ہے اور پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھرنے کو تیار ہے، اس اتحاد میں پھوٹ تو پڑ ہی چکی ہے اور یہ آپس میں بدظن لوگ جو اپنے مفادات کے لیے اکٹھے ہونے کی ناکام کوششیں کر رہے تھے اب ایک دوسرے سے مزید بدظن ہوتے جارہے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے مفادات کبھی بھی ایک نہیں رہے، ان کے مقاصد ایک نہیں تو اتحاد کیسا؟ ہر ایک اپنے اپنے مفادات کے لیے اس موومنٹ میں شامل ہوا تو اب ایک ہی تحریک کئی متضاد مفادات کو لے کر کیسے چل سکتی ہے؟ یعنی کہ یہ ایک غیر فطری اتحاد تھا اور اس قسم کے اتحادات کا یہ انجام ہوتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں