212

پیر مہر علی شاہ گولڑوی

یاسر صابری
پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی ولاد14ت ۱۴ اپریل1859 ء بمطابق یکم رمضان۱۲۷۵ ھ بہ روز سوموار گولڑا شریف کے معتبر گیلانی خاندان میں ہوئی. آپ کے والد گرامی کا اسم مبارک سید نذر دین شاہ اور دادا کا اسم مبارک سید غلام شاہ تھا.آپ کے نسب پاک کا سلسلہ25 واسطوں سے حضرت سید نا غوث اعظم محی الدین ابو محمد عبد القادر جیلانیؓ او36 واسطوں سے حضرت سیدنا امام حسنؓ سے جا ملتا ہے.آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی حضرت معصومہ بنت سید بہادر شاہابن سید شیر شاہ تھا.آپ نجیب الطرفین سید تھے.آپ کے پردادا پیر سید روشن دین اور ان کے چھوٹے بھائی پیر سید رسول شاہ کو علاقہ پوٹھوہار کی ولایت باطنی پر مامور کیا گیا تھا.آپ کے جد اعلا بارھویں صدی ہجری کے آخر میں ساڈھو ضلع انبالہ ہندوستان سے ہجرت کر کے اس قصبے میں سکونت پذیر ہوئےقرآن پاک کی تعلیم خانقاہ اور عربی فارسی اور صرف و نحو کی تعلیم کے لیے آپ کے والد بزرگوار کے ماموں پیر فضل دین شاہ گیلانی نے ہزارہ کے مولوی غلام محی الدین کو مقرر فرمایاجنھوں نے آپ کو کافیہ تک تعلیم دی.اس کے بعد موضع بھوئی (تحصیل حسن ابدال) میں مولانا محمد شفیع قریشی کے مدرسے میں دو اڑھائی سال تک تعلیم حاصل کی15سال کی عمر میں علی گڑھ جا کر حضرت مولانا لطف اللہ علی گڑھی کے درس میں اڑھائی سال تک رہے.سہارن پور میں فن حدیث کے امام مولانا احمد علی سہارنپوری سے بخاری شریف،مسلم شریف اور کتب الحدیث کی سند حاصل کی20سال کی عمر میں ہندوستان سے تمام علوم رسمیہ کی تکمیل کر کے وطن لوٹے اور اپنی آبائی مسجد میں درس تدریس کا سلسلہ شروع کیا.آپ کی شادی اپنے ننھیال میں سید چراغ علی شاہ کی دختر نیک اختر سے حسن ابدال میں ہوئی1889ء کو بیت اللہ شریف اور روضۂ رسولﷺ پر حاضر ہوئے.آپ نے تمام عمر تدریس علوم دینیہ اور تزکیہ نفوس بشریہ میں فرمائی18 اگست1933ء کو علامہ اقبال نے آپ کو عریضہ ارسال کر کے ’’زمان و مکاں‘‘پر حضرت شیخ اکبر کی تعلیمات اور ان کی کتب کے حوالہ جات کے بارے میں استفسار کیا اور لکھا’’اس وقت ہندوستان میں کوئی اور دروازہ نہیں جو پیش نظر مقصد کے لیے کھٹکھٹایا جائے.‘‘قادیانت کی بروقت تردید اور سدباب میں آپ نے تاریخی کردار ادا کرتے ہوئے 1900ء میں مرزا غلام احمد قادیانی کو شکست فاش دی11مئی1938ء بمطابق۲۹ صفر ۱۳۵۶ھ بہ روز منگل آپ کا وصال ہوا. آپ کی سیرت و تعلیمات پر کئی کتابیں اُردو اور انگریزی میں لکھی جا چکی ہیں جن میں سب سے زیادہ شہرت ’’مہر منیر‘‘ مؤلف مولانا فیض احمد فیض نے پائی.اس کا انگریزی ترجمہ از ڈاکٹر محمد فاضل خان بھی شایع ہو چکا ہےآپ کی تحقیقات نے اہل علم کے ذہنوں کو جلا بخشی.آپ کی اہم تصانیف میں ’’تحقیق الحق‘‘ (کلمہ طیبہ کی تشریح اور مسئلہ وحدت الوجود وغیرہ)،’’شمس الہدایہ‘‘اور ’’سیف چشتیائی‘‘ (مسئلہ حیات مسیحؑ اور ختم نبوتﷺ)،’’اعلائکلمتہ اللہ‘‘(مسایل نذر و نیاز سماع موتی،اتمداد اور علم غیب وغیرہ)،رسالہ ’’الفتوحات الصمدیہ‘‘(غیر مقلدین کے دس سوالات کے جواب میں)وغیرہ شامل ہیں.(۱)نعت (۲)
اج سک متراں دی ودھیری اے ، کیوں جنڈری اداس گھنیری اے؟
لوں لوں وچ شوق چنگیری اے ، اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں؟
مکھ چند بدر شعشانی اے ، متھے چمکے لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اکھ مستانی اے ، چٹے دند موتی دیاں ہَن لڑیاں
اس صورت نوں میں جان آکھاں ، جان آکھاں کہ جانِ جہان آکھاں
سچ آکھاں تے ربّ دی شان آکھاں ، جس شان توں شاناں سب بنڑیاں
ایہا صورت شاہا پیشِ نظر ، رہے وقتِ نزع تے روزِ حشر
وچ قبر تھیں پل تھیں ہوسی گزر ، سب کھوٹیاں تھیں ہون تَد کھریاں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں