راجہ طاہر محمود /دنیا بھر میں جون کے آخری ہفتہ میں منشیات کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کی مناسبت سے پورے ملک میں سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں اور لوگوں کو آگاہی فراہم کر نے کے لئے منشیات کے مضر اثرات کے بارے میں بتایا جاتا ہے اس دن کی مناسبت سے پاکستان بھر میں پکڑی جانے والی منشیات کو نظر آتش کیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر نوجوان نسل بڑی تیزی کے ساتھ منشیات کی عادی ہو رہی ہے اور ایسے نوجوانوں میں ان لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو پڑھے لکھے ہیں۔پاکستان میں انسداد منشیات کے لئے اینٹی نارکوٹیکس فورس اہم کردار ادا کر رہا ہے اس کی کامیابیوں کی داستان کراچی سے خیبر تک ہے جسکاناصرف ملکی میڈیا بلکہ عالمی میڈیا بھی معترف ہے۔ پاکستان میں انسداد منشیات کے لئے اینٹی نارکوٹیکس فورس کے کردار سے انکار ممکن نہیں جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی کرے اور جہاں کہیں بھی اسے خبر ملے منشیات فروشی کے سدباب کے لیے اقدامات اٹھائے۔ حالیہ چند سالوں میں ہے اینٹی نارکوٹکس فورس نے اہم کامیابیاں حاصل کیں ملک کے طول وعرض میں اینٹی نارکوٹیکس فورس کی ان کامیابیوں کی وجہ سے اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ ملک سے منشیات کے خاتمے کے لئے اینٹی نارکوٹکس فورس کے اقدامات اور کیے جانے والے آپریشنز کے اثرات انتہائی دور رس ہیں تاہم اب بھی منشیات فروشی کی لعنت کے خاتمے کے لئے مذیداقدامات کی ضرور ت ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 76 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جن میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں۔ منشیات کے عادی افراد میں 13سے 24سال کے لوگ شامل ہیں جو ایک یا ایک سے زائد بار نشے کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ پاکستان میں امیر اور غریب افراد کے نشے میں واضح فرق ہے کیونکہ نشہ اب سستا نہیں ہے۔ پیسے والا طبقہ آئس کرسٹل، میتھ، حشیش اورہیروئن کیساتھ ساتھ مختلف دواؤں کا استعمال کرنا پسند کرتا ہے جبکہ متوسط طبقے وا لے فارماسیوٹیکل ڈرگز، شراب، چرس، پان، گٹکا، نسوار اورسگریٹ وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں۔اس ضمن میں کیے گئے آخری قومی سروے (2002 تا 2003) کے مطابق ہیروئن کی لت میں مبتلا افراد کی اوسط عمر 26 سال سے کم ہو کر 22 سال تک کی تشویشناک حد پر پہنچ گئی ہے، جن میں بڑی تعداد خواتین بالخصوص مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ہے اور یہ شرح 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔آج کل انٹر نیٹ فیس بک، واٹس اپ اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع منشیات کی ترسیل کا موثر ترین ذریعہ ہیں جدید منشیات فروشوں تک رسائی ایک چیلنج ہوتی ہے علاقے میں کہاں کہاں منشیات فروخت ہو رہی ہے اب پتا لگانا تھوڑا مشکل ہے جدید منشیات فروشوں تک رسائی اینٹی نارکوٹیکس فورس کے لیے ایک چیلنج ہے اس چیلنج کو اینٹی نارکوٹیکس فورس ناصرف قبول کر رہا ہے بلکہ اس کی کامیابی کا تناسب بھی زبردست ہے روایتی طریقوں کے ساتھ ساتھ اینٹی نارکوٹیکس فورس اگرانٹرنیٹ،اور سوشل میڈیا پر کڑی نگاہ رکھے تو اس کاروبار کا سد باب ممکن بنایا جا سکتاہے اس کے لئے اینٹی نارکوٹیکس فور س محکمہ پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ عوام کا تعاون اشد ضروری ہے اسی طرح منشیات کے خلاف اگاہی اور تعاون سے ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد منشیات کے خاتمے کے لئے متحد ہو کر کوششیں کریں۔ منشیات کے مکمل خاتمے کے لئے، منظم جدو جہد اور معاشرے کی مسلسل حمایت سے ہی اینٹی نارکوٹیکس فور س کامیاب ہو سکتا ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ اینٹی نارکوٹکس فورس اپنی روایات کے مطابق تعلیمی اداروں پر کڑی نگا رکھے اور ان تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کرنے والے منشیات فروشوں کے خلاف سخت اقدمات کے ساتھ ساتھ ان کو سزائیں بھی دلوائے اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں اس کی روک تھام کے لیے بھی کوئی نہ کوئی جامع منصوبہ بندی کی جائے یہ سب کچھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے منشیات کی آسان دستیابی کو ختم کیا جاسکے گا کیونکہ نشے کی عادت جہاں انسانی تباہی کا باعث بنتی ہے وہیں کئی معاشرتی اور سماجی برائیوں کو بھی جنم دیتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے بطور ایک ذمہ دار شہری ہم عز م کرلیں کہ اس کے سدباب کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانا ہے تاکہ آنے والی نسلیں منشیات سے پاک پاکستان دیکھ سکیں
127