ایتھونولوگ کے مطابق دنیا میں چھ ہزار آٹھ سو زبانیں بولی جاتی ہیں اور کم و بیش اکتالیس ہزار مختلف لہجے اور بولیاں بولی جاتی ہیں جبکہ ایشیا کی اٹھارہ قومی زبانوں میں ایک اردو زبان بھی شامل ہے پنجابی زبان کا دنیا میں 9 واں نمبر ہے پنجابی کا اختراع اپبھرمش پراکرت زبان سے ہوا جبکہ اس کے پہلے شاعر فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ ہیں جبکہ سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک دیو سے ہوتے ہوئے سکھوں کے پانچویں گورو ارجن دیو جی نے گورو گرنتھ صاحب لکھی تھی پنجابی زبان کے بیشمار لہجے اور بولیاں ہیں جس میں سطح مرتفع پوٹھوہار میں اکثریت سے بولی جانے والی پوٹھوہاری ہے جس کے عروج کا زمانہ احمد علی سائیں ایرانی پشوری ؒ کے راولپنڈی میں تشریف لانے کے بعد شروع ہوتا ہے ذیل میں دھنی، پہاڑی لہجے بھی بولے جاتے ہیں کم و بیش ایک صدی کی محنت کا ثمر آج ہماری زبان پوٹھوہاری کی صورت میں ممکن ہوا ہے جس کے لیے ہمارے اسلاف نے نامساعد حالات میں لغات پوٹھوہاری زبان کا قاعدہ قرآن مجید کا پوٹھوہاری ترجمہ کر کے اس کو بطور زبان منوایا ہے جو کہ پچھلے دنوں فیصل عرفان اور انکے معاونین کی جدو جہد سے نادرا ڈیٹابیس میں زبان کے خانے میں کوڈ نمبر 36 مل چکا ہے پچھلے آٹھ سالوں سے مسلسل فرید زاہد شکور احسن کی ادبی تنظیم پوٹھوہاری ادبی سوسائٹی راولپنڈی مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے سالانہ پوٹھوہاری ادبی کانفرنس منعقد کرواتی رہی ہے جو اس سال بھی انعقاد پذیر ہوئی اور نہایت کامیاب بھی رہی۔پوٹھوہاری ادبی کانفرنس آرٹس کونسل راولپنڈی میں انعقاد پذیر ہوئی جس میں کل چار نشستیں رکھی گئیں پہلی نشست پوٹھوہاری کتابوں کی تقریب رونمائی تھی اور دوسری نشست تقسیم ایوارڈ ان ہردو تقاریب کی صدارت اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے چیئرمن ڈاکٹر یوسف خشک نے کی جبکہ مہمانانِ خصوصی ڈاکٹر حمیرا اشفاق‘ ڈاکٹر عبدالواجد تبسم‘ شوکت محمود قاضی مہمانانِ اعزاز ڈاکٹر واحد بخش بزدار ڈاکٹر منظور ویسریو ڈاکٹر سعدیہ کمال اور حسن نواز شاہ تھے کتابوں پر مضامین لکھنے والوں میں شامل پوٹھوہاری ادب کے صف اول کے شاعر مرزا یاسر کیانی اور قاسم اقبال جلالی و دیگر تھے جبکہ اس دوران پہلی بار آرٹس کونسل راولپنڈی کا ہال مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا رہا لوگ ہال کے اندر اور گیلری میں کھڑے ہوکر پروگرام سنتے رہے جس میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔تیسری نشست محفل موسیقی تھی جس کی صدارت شیراز اختر مغل نے کی جبکہ مہمانانِ خصوصی سجاد وسیم کیانی میرا یار پنڈی دا و دیگر تھے نظامت مبین مرزا نے کی پوٹھوہاری اور اردو گلوکاروں نے اپنے بہترین فن کا مظاہرہ کر کے خوب داد وصول کی لیکن یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پوٹھوہار کی گائیکی میں بیت بازی (شعرخوانی) کو ایک خاص مقام حاصل ہے پوٹھوہاری ادب کو اقوام عالم میں بیت بازی نے متعارف کرایا ہے جس کی وجہ سے آج دنیا کے کونے کونے میں لوگ پوٹھوہاری ادب و ثقافت سے متعارف ہوئے ہیں ان کو شامل نہ کرکے بہرحال زیادتی کی گئی ہے چوتھی نشست محفل مشاعرہ تھی جس کی صدارت مرزا سکندر بیگ نے کی جبکہ مہمانانِ خصوصی کہوٹہ کی نمائندگی کرتے ہوئے بندہ حقیر اور کلرسیداں سے عظمت مغل و دیگر تھے جس میں پوٹھوہار بھر راولپنڈی اسلام آباد کے گرد و نواح سمیت ٹیکسلا واہ گوجر خان جہلم اٹک چکوال کشمیر پہاڑ کہوٹہ کلرسیداں سے شعراء نے شرکت کی اور اپنے بہترین افکار و خیالات سے محفل مشاعرہ کو چار چاند لگائے۔آخر میں ہردو صاحبانِ کتاب فرید زاہد اور شکور احسن کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے پوٹھوہاری ادبی سوسائٹی راولپنڈی کے زیرِ انتظام و انصرام بھرپور محنت و مشقت سے کرائی جانے والی پوٹھوہاری زبان کے فروغ کے لیے خوبصورت اور کامیاب ترین محفل کا انعقاد کر کے اپنی ماں بولی کو بطورِ زبان پیش کرنے پر مبارکباد کے مستحق ہیں ہردو شخصیات اور ان کے معاونین و منتظمین کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
