دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں پولیس کا کردار اپنے شہریوں کی جان ومال کے تحفظ اور ان کے حقوق کی نگرانی کے لیے اہم تصور کیا جاتا ہے ترقی یافتہ ممالک کی پولیس کا کردار تو ہمارے لیے دیومالائی کہانیوں جیسا ہے جہاں ایک فون کال پر پولیس فوری مدد کے لیے پہنچتی ہے وہاں ناکے لگا کر بھتہ خوری یا ناجائز تنگ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن وہاں عوام بھی رائج قانون پر کاربند رہ کر معاملات زندگی چلاتے ہیں اس کے برعکس ہمارے یہاں ہر دور میں پولیس کو سیاسی طور استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی کیا جارہا ہے۔تھانوں میں سیاسی دخل اندازی کے بڑھتے رجحان نے جہاں پولیس کو نکما اور لاپروا کر دیا ہے وہیں جرائم کو پنپنے میں بھی مدد دی ہے جرائم پیشہ افراد افسران کے دوست اور معاشرے میں معتبر تصور کیا جاتے ہیں ہمارے ملک میں عوام پولیس بارے کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے بے اعتمادی کا عنصر بہت ہی نمایاں ہے اور اس کے لیے عوام اپنی سوچ میں حق بجانب بھی ہیں کیونکہ رائی ہوتی ہے تو ہی پہاڑ بنتا ہے پولیس کا محکمہ اپنی روایتی بے حسی اور نااہلی کے باعث عوام میں اہمیت کھو چکا ہے عوام اور پولیس میں دوری کا کارن وہ سیاسی افراد ہیں جو اپنی پسند اور مرضی کے افسران کی تعیناتیاں کرواتے اور پھر ان کے ہاتھ باندھ کر ڈیوٹی کرنے کو کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں جرائم کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔بیول اور گرد ونواح میں جرائم پیشہ افراد مسلسل سرگرم ہیں۔سود کا کاوربار ہو یا جواء کے اڈے‘منشیات کی فروخت ہو یا چوری کی وارداتیں سب کچھ تسلسل سے جاری ہے۔جبکہ جبر چوکی کاقیام بھی بہتری کے نتائج نہ دے سکا۔ کچھ عرصہ خاموشی کے بعد بیول اور گرد ونواح میں ایک بار پھر چوروں کی سرگرمیوں عروج پر ہیں ایک ہی شب میں بیول شہر کی چار دوکانوں کے تالے توڑ کر نقدی چرا لی گئی۔جبکہ نواحی علاقے ڈھوک مغلاں کے ایک گھر میں واردات کی نیت سے گھسنے والے دو غیر مقامی نوجوان سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے پکڑے گئے جنہوں نے اقرار جرم تو کیا لیکن طنزیہ مسکراہٹ سے کہا ان کا جملہ کہ پولیس کے حوالے کرو گے تو کل پھر یہیں نظر آئیں گا۔ہماری پولیس کی کارکردگی ہمارے نظام عدل اور قانون کی عملداری پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک ملزم کس ڈھٹائی سے اس نظام کا تمسخر اُڑا رہا ہے۔اطلاعات کے مطابق بیول اور گرد ونواح میں پولیس قانون کرایہ داری پر اس کی روح کے مطابق عمل کروانے میں ناکام ہے۔کیونکہ پکڑے جانے والے دونوں افراد کے پاس شناختی کارڈ تک بھی موجود نہیں جبکہ قانون کرایہ داری کے تحت مکان مالک کو کرایہ دار کا ڈیٹا متعلقہ تھانے میں جمع کروانا لازم ہے۔حتیٰ کہ مقامی شخص اپنے گھرآئے مہمان کو بھی تھانے میں انٹری کا پابند ہوگا۔لیکن یہاں باہر سے آئے لوگ ماد پدر آزاد ہوکر رہ رہے ہیں اور انہیں یقیناً یہاں کے مقامی افراد کی پشت پناہی حاصل ہے گرفتار ملزمان کا پولیس کے حوالے کیے جانے کا تمسخر اُڑانا ظاہر کرتا ہے کہ ان کی پشت پناہی طاقت ور لوگ کررہے ہیں۔اس سے قبل بھی ڈیکوریشن کی ایک دوکان سے رقم چرانے کے کیس میں پکڑنے جانے والے مقامی نوجوان کی پشت پناہی بارے کافی چہ میگوئیاں ہوتی رہیں جس میں میڈیا نے پردہ نشینوں کا ذکر کیا۔خیال تھا کہ
تحقیقا ت کے بعد ان سہولت کاروں کے نام سامنے لائے جائیں گے جو ان وارداتوں کے پشت پناہ ہیں لیکن حسب روایت چمک نے کام کیا اور تحقیقات محض ایک ہی چوری تک محدود رکھی گئی۔جبکہ اطلاعات تھیں کہ تحقیقات میں کافی معلومات ملی تھیں۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ان کریمنل افراد سے مساجد اورمزارات کے چندہ بکس بھی محفوظ نہیں ہیں۔دوسری جانب پکڑے جانے والے غیر مقامی افراد نے سہولت کاری کے حوالے سے یہاں کے کچھ مقامی افراد کے نام بھی لیے ہیں لیکن چار روز گزر جانے پر بھی پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نظر نہیں آئی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس غیر مقامی افراد کو مکمل واچ کرتے ہوئے انہیں قانون کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رہائش دینے والے افراد کو بھی قانون کے دائرے میں لائے۔اور تمام غیرمقامی افراد کے کوائف حاصل کر کے ریکارڈ کا حصہ بنائے۔بصورت دیگر عوام خود کو غیر محفوظ ہی تصور کریں گے۔
171