
دولت کا حصول انسان کو سفاک بنا دیتا ہے وہ جائز وناجائز بھول کر دولت کی ہوس میں عقل و خرد سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ وطن عزیر میں بے پہنچ لاچار اور غریب جس کرب اور اذیت زدہ زندگی بسر کررہے ہیں
اس درد کو ہماری ایلیٹ کلاس کسی طور محسوس نہیں کرسکتی۔ ہر طرف سے گھور اندھیروں نے ہمیں اپنے نرغے میں لے لیا ہے ہولناک سائے ہماری زندگیوں کو اپنے خون آشام پنجوں میں دبوچ کر نگل لینے کو بے تاب ہیں۔
ہمارے لیے غم زیادہ اور خوشی بہت کم ہے دور موجودہ میں یہاں ڑندہ رہنے کے لیے بہت زیادہ ہمت چاہیے۔یہاں سب کچھ بے ضمیر اور اور طاقت ور کلاس کی بھینٹ چڑھ گیا ہے ہم روتے ہیں لیکن ہماری آنکھیں بنجر ہیں کیونکہ مسلسل رونے سے ہماری آنکھوں کا پانی خشک ہوچکا ہے۔ہمیں لوٹا جارہا ہے۔
ہمیں مارا جارہا ہے اور اس لوٹ مار میں کیا حکمران۔کیا چوکیدار کیا بیور کریٹ اور کیا بینچ وبار سب ہماری کھالیں کھینچ رہے ہیں اور ان سب میں زیادہ سفاک ملک کی پولیس ہے
جو پورے ملک میں یکساں طور پر ظالم‘کرپٹ اور مادر پدر آزاد تصور کی جاتی ہے جو کسی کو جوابدہ نہیں محکمہ پولیس کے حوالے وقت نے ثابت کیا ہے کہ اپنی دہشت اور دبدبہ قائم رکھنے کے لیے اس محکمہ نے ہمیشہ ہر حد کو پار کیا ہے
پاکستانی پولیس دہشت خوف اور کرپشن کا نام ہے اس محکمہ نے ہمیشہ ظلم وجبر کی نئی نئی داستانیں رقم کی ہیں یوں تو ہر روز کہیں نہ کہیں پولیس کے ظلم۔زیادتی لوٹ مار اور اختیارات سے تجاوز کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں لیکں گزشتہ دنوں کلرسیداں پولیس کے خلاف ایک ماں کا احتجاج سینہ کوبی اور بین دل ہلا دینے والے تھے۔واقعہ کے مطابق غوثیہ محلے کا رہائشی نوجوان رباب حسین جو کسی جرم کے الزام میں پولیس کی تحویل تھا
جس کی ریمانڈ کے دوران پراسرار طور پر حوالات میں موت واقع ہوگئی۔نوجوان کی والدہ کے مطابق ایس ایچ او کلر سیداں نے مبینہ طور پر نوجوان کو ریلیز کرنے کے لیے پانچ لاکھ کا تقاضا کیا تھا عدم ادائیگی پر پرچہ دیا گیا۔نوجوان کی والدہ کا کہناہے کہ پولیس نے رقم نہ ملنے پر اس کے بیٹے کو قتل کیا ہے۔پولیس کا کردار اس سلسلے میں کافی مشکوک نظر آتا ہے۔پولیس کہانی کے مطابق نوجوان آئس کے نشے کا عادی تھا اسے لاک اپ میں بند کیا گیا
تو رات کسی وقت اس کی موت واقع ہوگئی سوال یہ ہے کہ کیا پولیس نے نوجوان کے انتقال کے بعد اس کے لواحقین کو فوری اطلاع دی۔کیا اس کے لواحقین کو پوسٹ مارٹم کے وقت ساتھ رکھا گیا۔میڈیا اطلاعات کے مطابق پوسٹ مارٹم کے لیے نعش ٹی ایچ کیو کلر سیداں کے بجائے ڈی ایچ کیو ں لے جائی گئی
کیوں؟ اور پھر پوسٹ مارٹم کی رپورٹ ٹی ایچ کیو کلر سیداں سے جاری کی گئی۔کیوں۔انتقال کی خبر پر نوجوان کی والدہ نے سڑک پر سینہ کوبی کرتے ہوئے پولیس پر قتل کا الزام لگایا تو کلر سیداں کے عوام کا ایک جم غفیر ان کے ساتھ احتجاج میں شامل ہوگیا۔جس پر پولیس کے اعلی حکام نے انصاف فراہمی کے وعدے پر احتجاج ختم کروایا
کیونکہ یہی طریقہ واردات ہے۔احتجاج ختم ہوچکا اب معاملہ وعدوں اور خوابوں پر آگے بڑھے گا۔پیٹی بھائیوں کی مدد سے یہ خون ناحق ڈبو دیا جائے گا جس طرح سانحہ ساہیوال کی شہداء کا کیس ختم کیا گیا۔
بس سمجھ لیں کہ اب درندے آبادیوں میں گھس آئے ہیں جو دیدہ دلیری اور بے خوفی کے ساتھ اپنے وحشیانہ جذبوں کی انسانی خون سے آبیاری کرتے پھر رہے ہیں اسلامی جمہوریہ کے اس معاشرے کے کمزور طبقات کے بے توقیری اور تذلیل اب اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ اس طبقہ کے افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے پر بھی کوئی سزا نہیں۔ماضی اور حال گواہ ہیں۔