120

پنڈی پوسٹ کی تیسری سالگرہ

چیف ایڈیٹر عبدالخطیب چوہدری

اللہ رب کریم کی پاک ذات کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج پنڈی پوسٹ نے اپنے اشاعت کے تین سال مکمل کرلیئے ہیں نئے ایڈیشن کا پہلا شمارہ بھی آپ کے ہاتھوں میں ہے جس میں قارئین کی جانب سے آنے والے مبارکباد کے پیغامات اور تاثرات سے ملنے والی حوصلہ افزائی نے ایک نیا جذبہ اور ولولہ پید ا کردیا ہے کہ ہماری کامیابی کا یہ سفر انشااللہ جاری رہیگا‘ تین سال قبل جب پنڈی پوسٹ کا آغاز ہوا تو جہاں بہت سی توقعات اور خواہشات تھیں وہاں انتے زیادہ تحفظات بھی تھے لیکن صحافت کو بطور کاروبار کی بجائے خدمت کا جذبہ لیے جب میدان میں اترنے کی نیت کرلی تو میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس میدان میں بھی ضرور کامیابی سے ہمکنار کریگا اور شاید یہ وجہ بنی پہلے دن ہی سے پنڈی پوسٹ کو ایک ایسی مخلص ٹیم ملی جس نے بغیر کسی لالچ اس کی کامیابی کیلئے بھرپور محنت کی جس کی وجہ سے اخبار نے صرف ابتدائی چھ ماہ کے دوران ہی قارئین کے دلوں میں جگہ بنالی ہر اتوار کو قاری اس کابے تابی سے انتظار کرتے ہیں حتی کے نیٹ کے زریعے پڑھنے والے قارئین کا دائرہ بھی انتہائی وسیع ہوچکا ہے اگر ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے میں تاخیر ہوجائے تو پڑھنے والے سوشل میڈیا اور ٹیلی فون کے ذریعے اس بارے استفسار کرتے ہیں جو کہ ایک گاؤں کی سطح پر شائع ہونے والے اخبار کی ایک بڑی کامیابی سے کم نہیں ہے ‘ اداروں کو چلانے کیلئے ایک طرف جہاں ایک اچھی ٹیم کی ضرورت ہے اور دوسری طرف بھاری اخراجات کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے جس کے لئے اداروں کو لامحالہ کسی نہ کسی کا سہارا لینا پڑتا ہے ‘ لیکن پنڈی پوسٹ کی اچھی اور مخلص ٹیم ہی سب سے بڑے سرمایہ صورت میں ایک دوسرے کا دست بازو بنی رہی جس کی بناء پر کوئی سرمایہ دار اپنے مقاصد کیلئے استعمال نہ کرسکا ہے اور نہ ہی کوئی سیاستدان اورپارٹی اپنا ترجمان بنا سکی ہے پنڈی پوسٹ کی کوشش رہی ہے کہ تمام پارٹیوں اور سیاستدانوں کو میرٹ اور برابری کی سطح پر کوریج دی جائے ‘حکومت وقت کے ہر اس فیصلے اور اعلان کو نمایاں طور پر شائع کرنے کی کوشش کی گئی جس میں میں عوامی مفاد ہو اس کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں کی نظروں سے اوجھل ہونے والے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے مسائل کو بھرپور کوریج دینے کوہی ترجیح دی گئی جنرل الیکشن ہو یا بلدیاتی انتخابات ہوں ہر موقع پر امیدواروں کو اپنا منشور عوام تک پہنچانے کے لیے پلیٹ فارم مہیاکیا گیا‘نئے لکھاریو ں کی حوصلہ افزائی کیلئے ایک پورا صفحہ مختص کیا گیا تاکہ علاقہ سے نئے لکھاریوں کو سامنے لایا جاسکے میں سمجھتا ہوں اس میں بھی ہمیں ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ ہمارے علاقہ کے درجنوں نئے لکھنے والے سامنے آئے ہیں جو اپنے قلم کے زریعے سے نہ صرف اپنے علاقہ کو پروموٹ کررہے ہیں بلکہ وطن عزیز پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے عوام میں شعور و بیداری پیدا کرنے میں اہم کردارادا کررہے ہیں مقابلہ کے اس دور میں پنڈی پوسٹ نے ہمیشہ حقائق پر مبنی خبروں کو اپنے صفحات کی زینت بنایااور دوسروں کو نیچا دکھانے کی بجائے ہمیشہ اپنے ساتھ چلانے کی کوشش کی ادارہ کی عزت و وقار اور صحافیوں کی عزت و نفس کو ہی قیمتی جانا الحمداللہ ہماری ٹیم میں کوئی بھی ایسا صحافی نہیں ہے جو کہ زردصحافت میں ملوث ہواور لوگوں کو بلیک میل کرکے اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے پنڈی پوسٹ کا نام استعمال کررہا ہو اور نہ ہی ادارہ کی جانب سے کارکنوں کو فورس کیا جاتا ہے کہ وہ اشتہارات کی مد میں ادارہ کو ماہانہ بزنس دے ہماری کوشش ہے کہ ہمارے معیار اور کوالٹی سے متاثر ہوکر کاروباری طبقہ اپنے کاروبار کی تشہیرکے لیے پنڈی پوسٹ کو بطور ایک پلیٹ فارم استعمال کر رہے ہیں جس سے ادارہ کو ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ علاقہ کی تاجربرداری اپنا اشتہار دینے میں فخر محسوس کرتی ہے ہماری کامیابیوں کا سفر رواں دواں ہے لیکن ہمارے کارواں میں پہلے دن سے شامل ساتھیوں میں سے میں برادر اصغر چوہدری محمد حبیب جنہوں نے اس کی سرکولیشن کے اضافہ کیلئے دن رات کا م کیا اور پھر اسی مشن کے سفر کے دوران ٹریفک حادثہ میں لقمہ اجل بن کر ہمیشہ ہمیشہ غم جدائی دے گئے پیارے دوست جاوید اقبال بٹ مرحوم پہلے شمارہ کی اشاعت کیلئے پرٹٹنگ پریس میں ساتھ گئے رات گئے جب طباعت کا آغاز ہوا تو پہلا شمارہ ہاتھ لیتے ہی ان کے چہرے پر خوشی کی انتہا تھی وہ زندگی کے ٓاخری تین سال تک پنڈی پوسٹ کو اپنا ذاتی اخبار ہی تصور کرتے رہے اس کی کامیابی کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہے گزشتہ ماہ ان کو دل کا دورہ پڑا جوکہ جان لیوا ثابت ہوا لیکن ان کی کاوشیں ادارہ کی کامیابی کیلئے ناقابل فراموش ہیں اللہ تعالیٰ جنت میں ان کے درجات بلند کرے‘ ابتدائی ساتھیوں میں محمد ابراہیم ‘ محمد نوید‘ زاہد حسین‘ چوہدری اشفاق‘ شہباز رشید‘ سردار بشارت ‘عبدالجبار چوہدری‘ملک ظفر‘پرویز وکی خلیق احمد راجہ‘ ناصر بشیر راجہ برداراکبر محمد حنیف اور جاوید چشتی اور بعدازاں اس کارواں میں شامل ہونیوالے ساتھیوں آصف شاہ‘عرفان کیانی‘ اسد حیدری‘ جاوید اقبال‘ راجہ انوار الحق سکوٹ‘ منیر چشتی‘ ہارون الرشید راجہ‘ راجہ غلام قنبر‘ مدثر بھٹی‘ فائزہ عابد جعفری ‘ راجہ طاہر محمود‘جواد مجید‘ طاہر یاسین طاہر‘ راجہ عرفان عزیز چونترہ‘ مسعود گیلانی‘ ارشد بھٹی‘ حبیب قریشی‘ منیب حسین، عدیل ملک ، فیصل صغیر یاسر ملک‘ مقصود علی‘ شہزادرضااورسیلم شہزاد کی کاوشوں کوادارہ قدرکی نگاہ سے دیکھتا ہے اور انکی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا

چوہدری محمد اشفاق

پنڈی پوسٹ۔۔عوام کی آواز بن گیا
الحمد اللہ پنڈی پوسٹ کی کامیابی کا تیسرا سال بھی مکمل ہو چکا ہے اس اخبار کا پہلا شمارہ 4 مئی 2012 کو شائع ہوا تھا جب یہ مارکیٹ میں آیا تو پوٹھوہار کے لوگوں نے اس کو بہت پیار دیا اور ہر کسی نے اس کو اپنا ذاتی اخبا ر سمجھا کئی لوگوں نے اس کو معمولی سا اخبار سمجھا اور یہ امید قائم کی کہ یہ اخبار زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکے گا مگر نیت اور ارادے سچے ہوں تو آنے والی مشکلات خود بخود دور ہوتی چلی جاتی ہیں رب کریم کے فضل و کرم سے پنڈو پوسٹ نے 3 سالوں میں وہ مقام حاص کر لیا ہے جو علاقہ کے دیگر بہت سے ہفت روزہ اخبار حاصل نہ کر سکے چیف ایڈیٹر عبد الخطیب نے دن رات محنت کر کے اس کو کامیابیوں سے ہمکنار کیا یہ بالکل کل کی بات لگ رہی ہے جب میں اخبار کی نمائندگی کے لیے حاضر ہو ا جب میری چیف ایڈیٹر سے ملاقات ہوئی تو اس وقت پنڈی پوسٹ کے دو شمارے شائع ہوچکے تھے اور میں تیسرے شمارے سے اس اخبار کے ساتھ منسلک ہو چکا تھا اور تیسرے شمارے ہی میں میرا نمائندہ بننے کا اشتہار شائع ہو ا تھا پہلی سالگرہ دوسری اور الحمد اللہ آج تیسری سالگرہ آچکی ہے اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں آج بغیر کسی تعطل کے پیش پیش ہوں ‘خطہ پوٹھوہار میں ایک ایسے اخبار کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی اور بہت سے لو گ یہ ڈیمانڈ کر رہے تھے کہ زرائع ابلاغ تو موجود ہیں لیکن دور کی سطح پر ہیں مقامی سطح پر کوئی ایسا اخبار شائع ہونا چاہیے جو عام آدمی کی آواز بن سکے اور لوگ آسانی سے اس تک رسائی حاصل کر سکیں عبد الخطیب چوہدری جو پہلے سے ہی میڈیا کے ساتھ منسلک تھے علاقہ کی ضرورت کے پیش نظر انہوں نے غور فکر شروع کر دی کہ کیا اخبار نکالنا تیار کرنا قارئین تک پہنچانا مشکل کام تو ثابت نہیں ہو گا آخر کار انہوں نے فیصلہ کیا کہ تمام مشکلات کے باوجود ایک ایسے اخبار کا اجراء کیا جائے جو ہر لحاظ سے منفرد ہو اور عام آدمی کی آواز بھی بن سکے اس سلسلے میں ایک فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں پنڈی پوسٹ عام آدمی کی طاقت بن کر نمودار ہوا اور اس کی پیشانی پر عبد الخطیب لکھا ہوا موجود تھا اس اخبار کے اجراء پر جہاں بیشتر لوگوں کو خوشی ہوئی وہاں پر چند لوگوں کو عجیب بھی لگا اور کچھ کو پریشانیاں بھی لاحق ہوئیں لیکن اس کے باوجود پنڈی پوسٹ کی محنتی ٹیم نے ثابت کر کے دکھا یا کہ اخبار کیسے چلا یا جاتا ہے ابتدائی دنوں میں کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا مگر وقت کے ساتھ ساتھ تمام مسائل پر قابو پا لیا گیا اور خطہ پوٹھوہار کو ایک ایسا اخبار مل گیا جو ہر لحاظ سے ان کی امنگوں کا تر جمان ہے ناقدین کا خیال تھا کہ یہ اخبار بھی دیگر کئی ہفت روزہ اخبار کی طرح چند ماہ چلے گا اور اپنے انجام کو پہنچ جائے گا مگر عبد الخطیب چوہدری نے ایسے تمام ارادوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے یہ ثابت کر دکھایا کہ اخبار بند کرنے کے لیے نہیں بلکہ کامیاب کروانے کے لیے نکالے جاتے ہیں پنڈی پوسٹ کو ابتدائی دنوں ہی سے یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس نے ہر شعبے کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کیا ہے جو مہارت رکھتے ہوں اور ان کا شمار اچھے لوگوں میں ہوتا ہو چیف ایڈیٹر کے اعلیٰ اخلاق اور رویے سے بہت متاثر ہوں جنہوں نے کبھی بھی غلط رپورٹنگ کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے اچھی اور مثبت رپورٹنگ ہی کو اہمیت دیتے ہیں سلسلہ جاری رہا اس وقت ضلع راولپنڈی میں اس اخبار کو ایک خاص مقام حاصل ہو چکا ہے اور قارئین کی تعداد حساب سے باہر ہو چکی ہے اور اس میں مذید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے پنڈی پوسٹ نے اپنے قارئین کے دلوں میں نیا جوش اور ولولہ پید کیا اپنے لکھنے والوں کو آزادی دی ہوئی ہے کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ کسی خاص فرد کی دھڑے بازی کرے اور ان تما م باتوں کا کریڈٹ صرف اور صرف چیف ایڈیٹر کو جاتا ہے جنہوں نے پوری ٹیم کو ہدایات دی ہوئی ہیں کہ مکمل غیر جانبداری کا مظاہر ہ کیا جائے پنڈی پوسٹ اب باقاعدہ ایک ادارے کی صورت اختیار کر چکا ہے پنڈی پوسٹ کی کامیابی میں بھائی محمد حنیف کا کر دار سب سے اہم ہے جنہوں نے سخت گرمی اور سردی میں اپنے قارئین کو بر وقت اخبار پہنچایا اور اس اخبار کی کامیابی میں ایک اور اہم ہاتھ جو آج ہم میں موجود نہیں ہے اس کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے چوہدری حبیب اللہ مرحوم ہے جنہوں نے ابتدائی ایام میں چیف ایڈیٹر عبد الخطیب چوہدری کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر کامیابی کے لیے محنت کی آج خوشی کے اس موقع پر پوری ٹیم کے ساتھ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فر مائیں اس وقت علاقہ بھر میں واقع ہونے والا کوئی بھی واقع یا حادثہ ہو سب سے پہلے پندی پوسٹ میں شائع ہو تا ہے ہماری ٹیم ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہوتی ہے اللہ کے فضل سے آج اس اخبار کی وساطت سے علاقہ کے کئی مسائل حل ہو چکے ہیں اور اعلیٰ حکام اس اخبار کا مطالعہ کرتے ہیں اور رہنمائی بھی حاصل کرتے ہیں بیرون ملک بیٹھے ہوئے خطہ پوٹھوہار کے لوگ بھی اس اخبار سے مستفید ہورہے ہیں اور آج یہ پوزیشن ہے کہ قارئین اتوار کے دن کا انتظار کرتے ہیں کہ کب اخبار کا مطالعہ کر سکیں پنڈی پوسٹ کو جہاں بہت سی کامیابیاں ملیں وہاں ایک بہت بڑے صدمے سے بھی دو چار ہونا پڑا ہماری ٹیم کے ایک نہایت ہی اہم رکن جاوید اقبال بٹ مرحوم جو آج ہماری خوشی میں شامل نہیں ہیں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں پچھلی سالگرہ کے موقع پر ہمارے ساتھ تھے اللہ تعالیٰ مرحوم کو معاف فر مائے آج پنڈی پوسٹ کی تیسری سالگرہ ہے اور اس خوشی کے موقع پر میری طرف سے چیف ایڈیٹر عبدالخطیب چوہدری اور ان کی پوری ٹیم کو مبارک باد قبول ہو اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پنڈی پوسٹ کو مزید کامیابیوں سے ہمکنار کرے اور ہمیں توفیق عطا فر مائے کہ ہم پہلے سے بہتر کام کر سکیں۔(آمین)

راجہ غلام قنبر

پنڈی پوسٹ کے پرنٹ ایڈیشن کا تیسرا سال مکمل ہونے کی سالگرہ ہے جبکہ ویب سائٹ پانچ سال کی ہوچکی ہے تین سال سے مسلسل اور کامیاب اشاعت پر پنڈی پوسٹ کی پوری ٹیم اور اس کے کپتان برادرم عبدالخطیب چوہدری خصوصی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ جن کی محنت اور مستقل مزاجی کا ثبوت پنڈی پوسٹ کی مسلسل اور غیر جانبدار اشاعت پنڈی پوسٹ کے حوالہ سے جہاں بھی تعارف کروایا تو اس میں اس بات کا فخریہ اظہار کیا کہ پنڈی پوسٹ کا پرچہ مفت تقسیم نہیں ہوتا بلکہ فروخت ہوتا ہے درجنوں ٹی وی چینلز، روزناموں حتی کہ ادارہ کی ذاتی ویب سائٹ کے باوجود پنڈی پوسٹ کی تمام کاپیوں کا فروخت ہونا اخبار کی کامیابی کی سب سے مضبوط و توانا دلیل ہے اس سیل کی بنیادہ وجہ یقینی طور پر یہ ہے کہ پنڈی پوسٹ علاقہ کی نمائندگی کا حق ادا کر رہا ہے خبر /بیان دینے والوں کی جانب سے جب ایک دو روزناموں کے ساتھ پنڈی پوسٹ میں بھی دینے کی تاکید ہوتی ہے جسم و جان میں تفاخر و تشکر کی لہر اٹھتی ہے تین سال کے ختصر عرصہ میں پنڈی پوسٹ کے دلوں میں پر ایسا راجہ کیا ہے کہ ماضی کا کچھ اخبار پھر انگڑائی لے کے زیور طباعت سے آراستہ ہونے لگے جبکہ کہوٹہ، روات، کلرسیداں سے کچھ نے علاقائی اخبارات بھی صحافتی منظر نامہ پر ابھرے ایک امید پرست شخص ہونے کے ناطے راقم اس رجحان سازی سے مثبت امیدیں رکھے ہوئے ہے کیونکہ عام ادارے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے اپنے اپنے جذبہ وشعورکے تحت علاقائی مسائل اٹھا رہے ہیں اپنی نمائندگی کاحق ادا کر رہے ہیں راقم تمام مثبت فکر اداروں اور شخصیات کی کامیابی کے لیے دعا گو ہے پنڈی پوسٹ نے جہاں علاقائی مسائل ، خبروں کو بہترین انداز میں جگہ دی وہاں خاص طور پر علاقائی سیاست کے اتار چڑھاؤ سے بھی قارئین کو باخبر رکھا لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی گنجائش بدرجہ اتم موجود ہے اس سلسلہ میں سماجی شخصیات کا تعارف بالخصوص ادبی شخصیات کے لیے ’’گوشہ ادب‘‘ کی اشد ضرورت ہے اسی طرح علاقائی تاریخ پر کام کرنے کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں ہے دیار غیر یا ملک کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے کامیاب شخصیات سے علاقہ کا تعارف بھی ازحد ضروری ہے امید ہے عبدالخطیب چوہدری اس سلسلہ میں ضرور کام کریں گے راقم کی ذاتی رائے یہ ہے کہ کچھ مالی طور پر مضبوط شخصیات اور ادرارے اگر ایک ایک شعبہ اپنے ذمہ لے لیں تو وہاں پنڈی پوسٹ نہ صرف اخبا رہے گا بلکہ آنے والے وقت میں قیمتی حوالہ بن جائے گا اور ساتھ ایسے منصوبہ جات پر تحریر و تحقیق کرنے والوں کی معاونت بھی ہوگی مال آسودگی کی وجہ سے تحریر و تحقیق کے دشت میں اتریں گے حرف آخر پنڈی پوسٹ کی ٹیم میں شامل بہت ہی پیارے صحافی جاوید بٹ ہم سے دو ماہ قبل بچھڑ گئے جبکہ بزرگ کالم نگار ملک ظفر صاحب بھی بیمار ہیں میری قارئیں سے التماس ہے کہ جاوید بٹ مرحوم کی مغفرت اور ملک صاحب کی صحت کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کریں اور اس دعا میں پنڈ ی پوسٹ کی ترقی و کامرانی کو بھی یاد رکھیں

عبدالجبا ر چوہدری

پنڈی پوسٹ چوتھی اڑان بھرنے کیلئے کمر بستہ ہے اور یہ چیف ایڈیٹر عبدالخطیب چوہدری کی استقامت‘انتھک محنت اور جانفشانی سے کام کرنے والی ٹیم کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے زندگی کا سفر ہے ہی ایسا کہ دو گام چل کے ساتھ چھوڑ دیا جاتا ہے پنڈی پوسٹ اس سلسلہ میں بھی بہت خوش قسمت ہے کہ جو ابتداء میں ساتھی بنا وہ چلتا رہا اور انشااللہ یہ سفر رفیق کاروں کی سنگت میں جاری رہے گا ۔اس سال بھی انتہائی مخلص ،دل کے نہا خانوں سے پنڈی پوسٹ کیلئے درد رکھنے والی شخصیت ہمیں داغ مفارقت دے گئی‘میرا اشارہ ہر وقت ہنسانے اور قہقہے بکھیرتے جاوید اقبال بٹ کی طرف ہے جنہوں نے سفرو حضر میں پنڈی پوسٹ کو حرز جاں بنائے رکھا ،عبدالخطیب کے حقیقی چھوٹے بھائی چوہدری حبیب کی جدائی کا زخم ابھی مند مل نہیں ہوا انہوں نے بھی پنڈی پوسٹ کی سرکولیشن کیلئے جو محنت کی اس کاپھل آج بھی مل رہا ہے ہر جگہ ان کی شخصیت ہی پنڈی پوسٹ کے تعارف کا سبب بنی ان کے بنائے گئے خریدار آج بھی اخبار بعد میں لیتے ہیں پہلے چوہدری حبیب کو یاد کرتے ہیں ۔پنڈی پوسٹ بلا شبہ علاقہ کلر سیداں ‘کہوٹہ ‘گوجرخان اور روات کی بھرپور ترجمانی کر رہا ہے خطہ پوٹھوار کی آئیندہ جب بھی تاریخ رقم ہوگی انشااللہ پنڈی پوسٹ کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا ۔علاقہ کی کوئی بھی تحریک ہو خالص معاشرتی یا سماجی مسئلہ ہو پنڈی پوسٹ نے اس کے لئے اپنے دامن کو وسعت دینے میں کبھی عا ر محسوس نہ کیا بلکہ خوشی کے ساتھ اس کو اپنے صفحات کی زینت بنایا اور اس بات کا عملی ثبوت یہ ہے کہ ہر عام و خاص پنڈی پوسٹ کے دفتر آنے نامہ نگار سے ملنے میں کوئی جھجک مھسوس نہیں کرتا میری دعا ہے کہ پنڈی پوسٹ کا حلقہ اسی رفتار سے وسیع ہو تا رہے اور اس سے وابستہ ہر آدمی صحت و تندرستی اور مکمل یکسوئی سے اس مشن کو جاری رکھے علاقہ کے لوگوں نے بھی جس محبت لگن اور جوش کا مظاہرہ کیا ہے ان کو بھی اللہ تعالی سلامت رکھے پنڈی پوسٹ کی اڑان افلاک کی وسعتوں تک پہنچے۔

ناصر بشیر راجہ

آج خوشی کا دن ہے اللہ تعالی کے فضل و کرم سے پنڈی پوسٹ اپنی تیسری سالگرہ سے منارہا ہے اس موقع پر ماضی کا ایک اایک لمحہ اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ یہ عہد ساز اور تاریخی لمحات کا سفر آسان نہیں تھا عبدالخطیب چو ہدری نے پنڈی پوسٹ کے چمن کی آبیاری اپنی ان تھک محنت سے کی اور اپنی تحریروں اور اخبار کوقارئین کے معیار کے قابل بنایاپنڈی پوسٹ ر وز اول سے آج تک اپنی راہنما پالیسی پر قائم ہے اور خدمت کا تاج سر پر سجائے سفر پر گامزن ہے پنڈی پوسٹ نے ہمیشہ قارئین کو درست اور مکمل خبر سیاق و سباق کے ساتھ پہنچائی سرکولیشن میں اضافے کے لیے کبھی غیر سنجیدہ صحافت کا سہارا نہیں لیا بلیک میلنگ اور سکینڈلز کی روش سے ہمیشہ اجتناب کیاآج بھی علاقہ کے عوا م اس ہفتہ وار اخبار کی آمدکے شدت سے منتظرنظر آتے ہیں جو کہ پنڈی پوسٹ کی علاقہ کی مقبولیت کا مظہر ہے یہ کہنا بے جا نہ ہو گاکہ پنڈی پوسٹ بہت کم عرصہ میں علاقہ کی عوام کی آواز بن چکا ہے اس موقع پر پنڈی پوسٹ کی ٹیم کے بنیادی ارکان کاذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی چوہدری حبیب پنڈی پوسٹ کے اجراء کے ڈیڑھ سال بعد ہی ٹریفک حادثہ میں داغ مفارقت دے گئے جو کہ پنڈی پوسٹ اور عبدلاخطیب چوہدری کے لیے بڑا صدمہ تھا چوہدری حبیب نے ابتدائی دونوں میں پنڈی پوسٹ کو علاقہ میں پہچانے کے لیے بہت محنت کی شہباز رشید چوہدری،راجہ غلام قنبر،آصف شاہ، چوہدری اشفاق، پرویز وکی، شہزاد رضا بھی پنڈی پوسٹ کی ٹیم کا حصہ ہیں اس موقع پر ان افراد کو بھی خراج تحسین نہ پیش کرنا بد دیانتی ہو گی دعا ہے کہ یہ اخبار اسی طرھ ترقی کی منازل طے کرتا رہے اور امید کر تا ہوں کہ آنے والے دنوں میں پنڈی پوسٹ کلمہ حق کہنے کی روایت برقرار رکھتے ہوئے صاف گوئی اور غیر جانبدار صحافت کاعلم بلند رکھے گا

پرویز اقبال وکی

آج کے اس جدید دور میں انسان مشین کی طرح کام کر رہااور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہر روز باخبر رہے اور باخبر رہنے کے لیے اسے پرنٹ میڈیا‘الیکڑونکس میڈیا‘ سوشل میڈیا کا سہارا لینا پڑتا ہے خطہ پوٹھوہار کی عظم سر زمین میں ایک ٹکرا تحصیل کلرسیداں اور گردنواح کا بھی شامل ہے تحصیل کلرسیداں تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔اس سر زمین نے بڑے بڑے نامی گرامی استاد‘سیاستدان ‘دانشوروار‘ کھلاڑی صحافیوں کے علاوہ بہت سے لوگ شامل ہیں جو تحصیل کلرسیداں کے ماتھے کا جھومر ہیں اور خطہ پوٹھوہار کو ان پے ناز ہے اسی طرح خطہ پوٹھوہار میں 3جون 1975کو موہڑہ بھٹاں میں پیدا ہونے والا بچہ کیا پتہ تھا کہ آنے والے وقت میں لوگوں کی زبان ،ان کی پہچان بن کے ابھرے گا‘ جی ہاں میرا اشارہ چوہدری عبدالخطیب کی طرف ہے جس نے اپنی صحافی زندگی کا سفر تو بچپن میں ہی شروع کر دیا تھا آپ سوچ رہے ہوں گے بچپن سے کیسے جب انسان کسی کام کا سوچتا ہے ارادہ کرتا ہے تو وہ اس کی بنیاد رکھ دیتا ہے ۔چوہدری عبدالخطیب نے 1997میں اپنے بچپن کے خواب کو عملی جامہ پہنایااور صحافتی زمہ داریاں نبھانا شروع کر دیں اور ہر روز کا سورج ان کی زندگی میں ایک نئی جدت اور امنگ لے کے جنم لیتا گیا۔اور چوہدری عبدالخطیب نے اپنی گاڑی کو منزل کی طرف رواں دواں رکھا ۔اور ساتھ ساتھ اپنے دوستوں کو کہتے رہے کہ مجھے جس معنوں میں علاقے کی زبان بنانا چاہتا تھا وہ ابھی تک نہیں بن سکا اور میں علاقے کی خدمت اسی وقت حقیقت میں کر سکتا ہوں جب میں بااختیار ہوں گااور یہ اسی وقت ممکن ہے جب میری قلم کوایک طاقت ملے گی اور اللہ پاک نے ان کی یہ دعا قبول کی اور4مئی 2012 کو نکلنے والا سورج اپنی کرنوں میں خوشی کی نویدلے کر پنڈی پوسٹ کو جنم دیا ‘آج یہ نام ایک جانا پہچانا جاتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں راج کر رہا ہے ۔چوہدری عبدالخطیب اور ان کی ابتدائی سپاہیوں نے اپنے 3سالہ دور میں اپنی محنت اور لگن سے پنڈی پوسٹ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ۔جو آج خطہ پوٹھوہار کا ایک مقبول ترین علاقائی اخبار بن گیا ہے ۔اور مجھے خوشی ہے میں اس وقت سے پنڈی پوسٹ میں اپنی زمہ داریاں احسن طریقے سے بنا رہا ہوں ۔ اور میری اپنے سوہنے رب پاک سے دعا ہے کہ وہ چوہدری عبدالخطیب اور ان کی ٹیم کو ثابت قدم رکھے اور حقیقت پر مبنی‘بلاتفریق صحافت کرنے کی ہمت دے آخر میں میری صحا فیوں بھائیوں سے گزارش ہے کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اس کو ایک بازاری پیشہ ہونے سے بچائیں اور مثبت اور حقائق پر مبنی صحافت کو ترجیح دیں ۔

راجہ شاہ میر اختر

شاباش ! عبدالخطیب چوہدری! صحافت برائے خدمت کے سلوگن پر ۳ سال کی پہرہ داری مبارک ہو !
واہ واہ نہ کروں توبخیل ہوں گا۔پنڈی پوسٹ نے علاقے میں لوگوں کو نہ صرف پڑھنے کی طرف مائل کیا بلکہ میرے جیسے کئی بوڑھوں کے ہاتھ میں قلم بھی تھما دیا اور موبائیل سے ذرا فرصت بھی دلو ادی۔یہ جوان دن کو محنت مزدوری اور رات کو سڑ ک کنار ے ا خبار کی تیاری میں پونے دو بجا دیتے ہیں ،بچوں خصوصاً خواتین کا سجا سجایا گلدستہ بھی ہرہفتہ گھروں میں پہنچ رہا ہے۔عبدالخطیب چوہدری کی انہی کاوشوں اور علاقے میں آگائی پیدا کرنیکے عمل کو سراہے بنا ء نہیں رہتا، وجہ چوہدری صاحب کی انتھک شبانہ روز کی محنت اور مشن سے لگن سے اور دلجمعی سے کام کرکے پنڈی پوسٹ کا لوہا منوانا‘ تیسری سالگرہ کے موقع پر میں اور پوٹھوار سوشل ویلفیئر ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹیو باڈی کی جانب سے دلی مبارک باد اور دعا گو ہوں کہ پوری ٹیم پنڈی پوسٹ کی سلامت رہے راجہ شاہ میر اختر

شہزاد رضا

آج 3مئی ہے یہ دن مجھ سمیت پنڈی پوسٹ سے وابستہ ہر فرد کے لیے انتی ہی خوشی کا دن ہے جتنا کہ میرے لیے چاہے وہ کوئی پنڈی پوسٹ کو دور دراز دیہی علاقوں میں بیٹھا محنتی نمائندہ ہو ،چاہے وہ اخبار کو مارکیٹ میں تقسیم کرنے ولا ہو ، اخبار کو عملی طور پر بنانے والا ہو یا دیہی عوام کا نمائندہ اخبار کو پڑھنے والے ہو ں سبھی کے لیے آج کا دن بہت اہم ہے کیونکہ جو پوداتین سال پہلے لگایا تھا اب وہ تناآور درخت کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے یہ سب ایک ٹیم نیٹ ورک کی بدولت ہی ممکن ہوااور میرے لیے اعزاز کی بات کہ میں بھی اسی ٹیم کا حصہ ہوں کہتے ہیں کہ اگر انسان کی نیت پختہ ہو تو اس عزم کے ساتھ اگر میدان عمل میں اترا جائے تو کامیابی انسان کا مقدر ضرور بہ ضرور بنتی ہے پندی پوسٹ صرف ایک اخبار ہی نہیں اس میں لکھا جانے والا ہر ایک لفظ ہی بہت قیمتی ہوتا ہے جس پر ٹیم کی محنت نظر آرہی ہوتی ہے پنڈی پوسٹ نے دیہی علاقوں میں شعور کی کمی کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی کرتا رہے گالوگوں میں واضح طور پر اس با ت کا شعور پید اہوا ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کر سکیں اپنے مسائل کو حکام بالا تک پہنچاسکیں پنڈی پوسٹ نے صحافت برائے خدمت کے مشن کے تحت کام شروع کیا اور اس میں شامل ایک ایک فرد نے انتہائی نیک نیتی اور مخلص ہو کرکام کیاجس کے باعث آج 3سال مکمل ہوئے یقیناًمبارکباد کے مستحق ہیں چیف ایڈیٹر پنڈی پوسٹ عبدالخطیب چوہدری جنہوں نے ہر طرح کے حالات کامقابلہ کرتے ہوئے پنڈی پوسٹ کی اشاعت کو قابل یقین بنایاعوامی خدمت کے تحت مکمل سنجیدگی کے ساتھ اخبار کو چلایا بغیر کسی مفاد اور مطلب کے ادارے کو چلایااس عزم کو لے کر کہ عام آدمی کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے حکام بالا تک پہنچائے جا سکیں ایک بات جو مجھے کہتے ہوئے بالکل بھی جھجک محسوس نہیں ہو رہی کہ چوہدری صاحب نے بطور ایڈیٹر اخبار چلانے کا حق ادا کر دیا جس خبر کی جتنی اہمیت تھی اس کو پنڈی پوسٹ میں اتنی جگہ بھی فراہم کی گئی یعنی میرٹ کو سامنے رکھتے ہوئے خبر کو پرنٹ کیا گیا اخبار کی کامیابی میں دوسرا بڑا ہاتھ اگر میں کہوں تو قارئین کی پسندیدگی ہوتی ہے کہ وہ اخبار کے آنے کا سات دن انتظار کرتے ہیں اور جب مارکیٹ میں آجاتی ہے تو اس کو شوق و ذوق سے پڑھتے ہیںیہی اخبار کی کامیابی ہوتی ہے اور علاقائی اخبار ہونے کے ناطے پنڈی پوسٹ کو عوام نے جو مقام دیا اس پر میں بطور پنڈی پوسٹ کی ٹیم کا حصہ آپ سب کا ممنون ہوں اگر میں پنڈی پوسٹ کے ساتھ اپنے گزرے سفر سے متعلق بات کروں تو صرف اتنا ہی لکھوں گا کہ خدا نے میرے نصیب میں عبدالخطیب چوہدری جیسے انتہائی پرخلوص اور درد دل رکھنے والے دوست لکھے جنہوں نے ہمیشہ ہر مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا میں آج کچھ بھی ہوں انہی کی بدولت ہوں مجھے اس بات کی سب سے بڑی خوشی ہے کہ میرا وسطہ بہت نیک لوگوں سے پڑا جنہوں نے میرا ایک ایک قدم پہ ساتھ دیایہی میری پہچان ہیں تین سال کے اس سفر میں کچھ نئے چہرے ساتھ قافلے میں شامل ہوئے ویسے ہی کچھ چہرے دنیائے نظر سے رخصت بھی ہوئے گزشتہ سال جو دوست دوسری سالگرہ پہ ہمارے ساتھ موجود تھے ان میں سے ایک دوست کم ہے میں بات کر رہا ہوں جاوید بٹ صاحب کی جتنے وہ خود حسین تھے اتنی پیاری باتیں وہ کیا کرتے تھے وہ خود تو آج ہماری ٹیم کاحصہ نہیں مگر ان کی خوبصورت یادیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ رچی بسی رہیں گی آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ میری دعا ہے میں اس ٹیم حصہ رہوں یا نہ رہوں اس قافلے میں شامل لوگ ہمیشہ سلامت رہیں اور یہ قافلہ یوں ہی چلتا رہے اور کاروان بنتے رہیں پڑھنے والے تمامی افراد کا شکریہ

 


طاہر یاسین طاہر

انسانی مزاج اس کلیے سے آشنا ہے ،وہ ہمیشہ سے اپنے اردگرد کے بارے میں تجسس رکھتا ہے۔پہلے پہل جب ذرائع ابلاغ کے جدید انتظامات نہ تھے اس وقت کا انسان بھی اپنے ماحول اور اردگرد کے بارے کھوج میں لگا رہتا تھا۔آج کی جدید دنیا نے اگرچہ انسان کو ابلاغ کی جدید ترین سہولیات میسر کر دی ہیں مگر انسانی تجسس اور کھوج میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ آہستہ آہستہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔کوئی کتنا ہی بڑا سکالر کیوں نہ ہو،اور وہ بین الاقوامی امور کا کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو،وہ کبھی بھی اپنے علاقائی اور پیدائشی علاقے سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔بلکہ جوں جوں انسان عالمی امور کی طرف دھیان دیتا ہے اور قوموں کی ترقی و تنزلی کے اسباب پر نظر ڈالتا ہے تو بے ساختہ اسے اپنے وطن کے ساتھ ساتھ اپنے آبائی علاقے،اپنے پہلے سکول،اور کالج کا دھیان بھی آتا ہے۔یہ انسانی مزاج اور فطرت ہے ،اور پنڈی پوسٹ علاقے کے لوگوں کی اسی فطری ضرورت کو پورا کر رہا ہے۔کوئی اخبار خواہ وہ روزنامہ ہو یا ہفت روزہ،راتوں رات مقبولیت کی بلندیاں نہیں چھو سکتا اس کے لیے محنت،لگن،دیانت اور جذبے کارفرما ہوتے ۔مگر یہ سب فردِ واحد کا کام بھی نہیں بلکہ اس کے لیے ٹیم ورک کی ضرورت ہوتی ہے۔اچھی ٹیم کسی بھی ادارے کو مقبولیت کی بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے،لیکن اس حوالے سے ادارے کے مالک کا اپنی ٹیم پر اعتماد اور ان کے ساتھ رویہ مشفقانہ ہونا ضروری ہے ۔میرا صحافتی تجربہ یہ کہتا ہے کہ کسی ہفت روزے کا مسلسل تین برس تک چھپتے رہنا اور ہر شمارے کا پہلے سے بہتر چھپتے رہنا اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔اس پر لمبی چوڑی بحث اور دلائل کی کوئی ضرورت نہیں۔پنڈی پوسٹ نے علاقائی صحافت میں نام پیدا کیا اور بلاشبہ اب آنے والے ماہ و سال میں اس علاقے سے اگر کوئی ہفت روزہ شائع ہو گا تو اسے کم از کم خبر نگاری اور ’’لے آؤٹ‘‘ کے حوالے سے پنڈی پوسٹ کی تقلید کرنا پڑے گی۔پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈیٹر عبدالخطیب چودھری جو میرے دوست بھی ہیں،انھیں صحافت کا جنون ہے۔میری جب بھی ان سے ملاقات ہوئی ان کے صحافتی تجسس نے مجھے مرعوب کیا۔وہ سیکھنے پر یقین رکھتے ہیں اور یہی ان کی کامرانی کی دلیل ہے۔عبدالخطیب چودھری اس حوالے سے بھی خوش قسمت ہیں کہ انھیں پنڈی پوسٹ کے لیے مختلف علاقوں اور یونین کونسلوں سے محنتی نمائندے ملے اور ان کی ٹیم بے شک اس کامیابی پر مبارکباد کی مستحق ہے۔ہم امید رکھتے ہیں کہ پنڈی پوسٹ آنے والے دنوں میں نہ صرف کامرانی کی نئی منزلیں طے کرے گا بلکہ یہ اخبار ایک ہفت روزے سے ایک روزنامے کی طرف بھی جائے گا۔پنڈی پوسٹ کے ایڈیٹر انچیف کو ایک سہولت یہ بھی میسر ہے کہ ان کے اخبار کا ’’ہاکر‘‘ ان کا اپنا بھائی ہے،میں سمجھتا ہوں کہ اگر عبدالخطیب صاحب کے بھائی کی محنت کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ صحافتی بددیانتی ہوگی۔ہمیں اس امر کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس وقت تک پنڈی پوسٹ علاقائی سطح کا مقبول ترین اخبار ہے اور اس اخبار کے تیور بتا رہے ہیں کہ اس نے ابھی اوربہت کچھ کرنا ہے۔اللہ پاک پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈیٹر اور ن کی ساری ٹیم کی توفیقات میں مزید اضافہ کرے اور سب کو اچھی، معیاری اور دیانتدارانہ صحافت کے اصولوں کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں