شہزادرضا /پنڈی پوسٹ آٹھ برس کا ہو گیا اور مجھے بھی شعبہ صحافت سے وابستہ ہوئے آٹھ سال مکمل ہو چکے ہیں بچپن سے اخبار کے مطالعہ کا شوق رہا والد صاحب فرائض کی انجام دہی کے بعد شام کو گھر آتے تو ان کے ہاتھ میں لپیٹا ہوا اخبار ہوتا جو ان سے بعد از سلام میرے ہاتھ میں ہوتا‘اخبار کے ہر ورق کا بغور مطالعہ کرتاوقت گزرتا چلا گیا دور طالبعلمی کی دسویں منزل کو پاس کیا تو ایک دن بازار پہنچا،شوق جو تھا اخبار کے مطالعہ کا گاڑی سے اتر کر سیدھااخبار فروش کے ا سٹال کے سامنے جا کھڑا ہوا اسٹال پر جہاں قومی اخبارات موجود تھیں وہیں پر چار صفحات کا ”پنڈی پوسٹ” نظروں سے گزرا اخبار فروش نے بتایا کہ علاقائی اخبار ہے آج پہلا ایڈیشن شائع ہوا ہے لیجیے پڑھیے اخبار تھامے گھر پہنچا مجھے یاد پڑتا ہے مئی کی گرمی بھی عروج پر تھی اخبار کے چاروں صفحات کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد پیشانی پر درج ٹیلیفون نمبر پر کال ملائی اور یوں مجھ پر ہمیشہ شفقت اور مہربانی کرنے والے عبدالخطیب چوہدری سے میری بات ہوئی اپنے دل کی بات سنائی‘بولے! روات کلرسیداں روڈ پر واقع سردار مارکیٹ آجائیں شوق ہی اتنا زیادہ تھا کہ مئی کا سورج تپتی دوپہر بھی رکاوٹ نہ ڈال سکے دفتر پہنچا تو سامنے دفتر میں تین شخصیات موجود تھیں جو میرے لیے انجان تھیں جن میں سردست عبدالخطیب چوہدری‘ اخبار کو رنگوں میں ڈھالنے کا ملکہ رکھنے والے محمد ابراہیم اور تیسری شخصیت وہ جو دفتر آنے والے ہر شخص کی خدمت پر معمور ہیں میری مراد احسان الحق‘ سوالات و جوابات کا سلسلہ شروع ہوا پوچھا گیا اخبار کے مطالعہ کا اگر شوق ہے تو یقیناً خبر بھی لکھ لیتے ہوں گے میں نے ہاں میں سر ہلایا خبر لکھی دیکھنے کے بعد بولے آپ کل سے آجائیں آپ کے اندر شوق اور جذبہ ہے آپ کام کر لیں گے،عبدالخطیب چوہدری جہاں دیگر بہت دوستوں کے لیے اُستاد کا درجہ رکھتے ہیں وہیں میرے لیے نہ صرف شفیق اُستاد ہیں بلکہ بھائیوں جیسا پیار بھی دیتے ہیں میری شعبہ صحافت کی عمر پنڈی پوسٹ کے صرف ایک ایڈیشن(یعنی ایک شمارہ) سے چھوٹی ہے وقت گزرتا چلا گیا اس دوران ملک ظفر اقبال‘ چوہدری حبیب‘جاوید اقبال بٹ اور ناصر بشیر جیسے جانفشاں دوست داغ مفارقت بھی دیتے چلے گئے دنیا بھر میں کسی بھی لمحے کسی بھی وقت پنڈی پوسٹ ڈاٹ پی کے کو اپڈیٹ کرنے کی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ مارکیٹنگ کا شعبہ بھی میرے پاس ہے مالک کل کے شکر گزار ہیں کہ ” پنڈی پوسٹ ” نے سنٹرل میڈیا لسٹ میں بھی جگہ بنا لی ہے یقیناً یہ کامیابیاں جہاں محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں وہیں پر مستقل مزاجی کے بغیر ایسے نتائج کا آنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو جاتا ہے میں اس بات کا گواہ ہوں اخبار کو چلانے کے لیے کبھی اشتہارات کا سہارا نہیں لیا گیا گرمی دیکھی گئی نہ سردی یہی عزم تھا جس نے آٹھ سال مکمل کروا دئیے اور وقت کا پتہ بھی نہ چلا،پنڈی پوسٹ میرے لیے دوسرا گھر ہے جہاں چوبیس گھنٹوں میں زیادہ وقت گزر جاتا ہے مجھے آج بھی اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ میرا ابھی تک کا صحافتی سفر ایسے پلیٹ فارم پر گزرا جہاں نہ صرف دوستوں کی عزت کی جاتی ہے بلکہ ساتھ چلنے والوں کے دکھ درد میں اپنوں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے میں اس موقع پر ان قارئین کا ذکر بھی کروں گا جو سال بھر پنڈی پوسٹ کو باقاعدگی سے نہ
صرف پڑھتے ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً ٹیم کی رہنمائی بھی کرتے رہتے ہیں کہنے کو آٹھ سال گزر گئے لیکن ان آٹھ سالوں میں جس مستقل مزاجی‘ شوق اور جذبے سے عبدالخطیب چوہدری بطور لیڈر ہمیں (میری مراد ٹیم) کو ساتھ لے کر چلے اگر یہ جذبے سلامت رہے تو انشاء اللہ ” پنڈی پوسٹ” ایسی کئی منازل طے کرے گا کیونکہ پنڈی پوسٹ جریدہ تو ہے ہی لیکن اب یہ ایک ادارہ بن چکا ہے اور ادارے افراد کی مرہون منت نہیں ہوا کرتے بلکہ افراد اداروں کی مرہون منت ہوتے ہیں خدا جانے ہم کل ہوں گے یا نہیں لیکن یہ جریدہ ان صفوں میں ضرور شامل ہو گا جہاں خبر کو اس کی حقیقت اور پس منظر جانچ کر چھاپا جاتا ہے جہاں جھوٹ اور سچ میں تفریق کی جاتی ہے اور جہاں سنسنی کی بجائے خبر کو ذمہ داری سے چھاپا جاتی ہے۔مجھے اس موقع پر ناصر کاظمی کا یہ خوبصورت شعر یاد آرہا ہے جو میں پڑھنے والوں اور بالخصوص اپنی ٹیم کی نذر کروں گا۔
دائم آبا د رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
268