کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھاآج سے ٹھیک تین سال پہلے عبدالخطیب چوہدری نے پنڈی پوسٹ کے نام سے جو ننھا پودا لگایا تھا وہ آج تین سال کے محدود عرصے میں ہی ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر جائے گا آج سے تقریباََ دو سال پہلے جب میں پنڈی پوسٹ کی ٹیم میں شامل ہوا تو اس وقت کچھ ہی دن ہوئے تھے پنڈی پوسٹ کی پہلی سالگرہ کو اور اسے ایک سال مکمل ہو چکا تھا۔ مگر تب تک کوئی اتنا زیادہ پنڈی پوسٹ کے نام سے واقف نہیں تھا۔ میں بذات خود بھی پنڈی پوسٹ کے نام سے واقف نہیں تھا۔ مجھے میرے ٹیچر عمر خیام صاحب نے کہا کہ پنڈی پوسٹ میں جاب کی ویکنسی آئی ہے رابطہ کرو میں جب آٖفس پہنچا تو عبدالخطیب صاحب نے میرا انٹرویو وغیرہ لیا اور مجھے سلیکٹ کر لیا۔ مجھے اس سے پہلے اخبار کے کام کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ لیکن عبدالخطیب صاحب نے یک ایک بات پریکٹیکلی پرفارم کر کے سمجھائی ۔ اور اس کے علاوہ محمد ابراہیم اور زاہد صاحب جیسے عظیم استاد وں کی چھتر چھایہ میں کام کرنے کا موقع ملا جن سے اب تک بہت کچھ سیکھا اور مزید کچھ نہ کچھ ضرور سیکھنے کو ملتا ہے ۔ تب ابراہیم بھائی گلدستہ کے انچارج تھے اور ان کے جانے کے بعد مجھے یہ مقام حاصل ہوا کہ مجھے ایک ہفتے کے اندر ہی انچارج گلدستہ بنا دیا گیا۔شروع میں چونکہ مجھے اس کام کا زیادہ تجربہ نہیں تھا اس لیے بہت سی غلطیاں سر زد ہو جاتی تھی ۔لیکن چوہدری عبدالخطیب نے کبھی بھی غصہ نہیں کیا بلکہ اتوار کے دن جب اخبار پرنٹ ہو کہ آجاتا تو انہوں نے غلطیوں کو سرکل کیا ہوتا مجھے پاس بٹھا کر ساری بات سمجھاتے اور درستگی کرواتے۔ا س کے علاوہ ابراہیم بھائی اور زاہد صاحب بھی ایک رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔ابراہیم بھائی نے مجھے گلدستہ کے حوالے سے ساری باتیں سمجھا دیں ۔ تب پنڈی پوسٹ اگر ایک ننھا سا پودا تھا تو گلدستہ بھی اس ننھے سے پودے کی ایک چھوٹی سی ٹہنی تھی ۔ یعنی ایک پیج کے چوتھے حصے سے کم جگہ تھی جہاں پر ہم
گلدستہ بناتے تھے۔ تب مجھے اندازہ بھی نہ تھا کہ ایک دن یہ ٹہنی اتنی بڑی ہو جائے گی کہ ہاف پیج تک پہنچ جائے گی۔اور ٹہنی گلدستہ بن جائے گی۔۔ وہ وقت ایسا تھا کہ میں پورا ہفتہ بڑی ہی بے چینی سے لوگوں کے میسجز کا انتظار کرتا تھا۔اور کسی کا میسج آتا تو فوراََ چوہدری صاحب کو بتاتا کہ آج فلاں جگہ سے میسج آیا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ گلدستہ کی مقبولیت بڑھنے لگی اور ہمارے پاس پیغامات کی تعداد بڑھنے لگی اور ہمارے پاس جگہ کم تھی چوہدری صاحب کو جب یہ پتا چلا انہوں نے پیچ کا کوارٹر حصہ گلدستہ کیلئے مختص کر دیا ۔لیکن وہ کچھ عرصہ میں ناکافی ثابت ہونے لگا اور پیغامات کی تعداد مزید بڑھ گئی کیونکہ گلدستہ کے قارئین میں دن بدن اضافہ ہوتا گیااور لوگوں میں اس کی مقبولت بڑھتی گئی ۔اسکی وجہ یہ تھی کہ گلدستہ کو عوام کی زبان تھا یعنی ان کے پیغامات سے تیار کیا جاتا ہے۔ پنڈی پوسٹ کی دوسری سالگرہ کے آنے سے پہلے ایک دن ایسا آیا کہ چوہدری صاحب نے اسے ہاف پیج کر دیا ۔اور ساتھ ہی گلدستہ کے پیغام کے حوالے سے مشورہ دیا کہ آپ قارئین کے ساتھ ڈائریکٹ بات چیت کا سلسلہ شروع کرو ایک پیغام کے ذریعے ۔مجھے چونکہ لکھنے کا زیادہ شوق نہیں تھا لیکن چوہدری صاحب کی رہنمائی سے میں نے گلدستہ کے پیغام کے نام سے نیا سلسلہ شروع کیا جو آج تک میرے لیے کافی فاہدہ مند ثابت ہوا۔ اور اللہ کے فضل وکرم سے اور قارئین کی محبت سے کام چل پڑھا اور آج ہاف پیچ ہونے کے باوجود بھی لگتا ہے کہ جگہ بہت کم ہے اور قارئین کے پیغامات بہت زیادہ جس کی وجہ سے بہت سے قارئین کو یہ گلہ بھی رہتا ہے کہ ان کے پیغامات شامل نہیں کیے جاتے۔ مگر میری کوشش ہوتی ہے کہ نئے شامل ہونیوالے قارئین کو ضرور جگہ دی جائے باقی پہلے آؤ پہلے پاؤ کی بنیاد پر شامل کیے جاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کوالٹی آف پیغامات بھی دیکھی جاتی ہے۔کیونکہ کہ چوہدری صاحب ہمیشہ یہی ہدایت کرتے ہیں کہ کوئی بھی غیر اخلاقی پیغام شامل نہیں کرنا ۔ اس کے علاوہ ہمارے بہت ہی عزیز عبدالجبار چوہدری صاحب ہمیشہ تنقید برائے اصلاح کرتے ہیں ۔ اور ان کی تنقید بھی اتنی پیار بھری اور میٹھی ہوتی ہے کہ اس چیز کی درستگی بھی ہو جاتی ہے اور ان کی بات بری بھی نہیں لگتی ۔ کیونکہ عبدالجبار صاحب جب بھی کبھی ملتے تو اخبار ان کی جیب میں ہوتی ہے اور وہ اپنے مخصوص اندازمیں پوائنٹس کو سرکل کیا ہوتا ہے جہاں جہاں مسئلہ ہوتا ہے ۔ پھر بہت ہی پیا ر سے سمجھاتے ہیں کہ اگر اس کو ایسا کیا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا۔ان کی وجہ سے دو سالوں میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔ مجھ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے تو فوراََ ہی بلا ججک ان سے رابطہ کر لیتا ہوں وہ ہمیشہ بڑے بھائی کی طرح رہنمائی کرتے ہیں ۔ پنڈی پوسٹ کو آج تین سال مکمل ہو رہے ہیں اور مجھے فخر ہے کہ میں اس ٹیم کا حصہ ہوں ۔ آج اگر کہیں کسی جگہ میں جا کر یہ کہتا ہوں کہ میں عرفان کیانی انچارج گلدستہ ہوں تو لوگ نہ صرف خوشی سے ملتے ہیں بلکہ بہت عزت افزائی بھی کرتے ہیں ۔ پنڈی پوسٹ سے پہلے عرفان کیانی کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ لیکن اب پنڈی پوسٹ کی وجہ سے لوگ عرفان کیانی کو پہچانتے ہیں ۔ سچ کہا کسی نے کہ محنت میں عظمت اور برکت ہے ۔ لیکن یہ سب ہماری محنت کے ساتھ ساتھ آپ دوستوں کے مشوروں ‘پیغامات اور رہنمائی کی وجہ سے ممکن ہو سکا ۔کیونکہ کوئی بھی اخبار قارئین کی دلچسپی کے بغیر نہیں چل سکتا اور گلدستہ کو ہمیشہ قارئین کے پیغامات سے ہی سجایا جاتا ہے اور ان کی پسند ناپسند کو مد نظر رکھ کر ہی ترتیب دیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ اور لوگوں کو اس سے سیکھنے کا موقع بھی ملے اس وجہ سے ہر ہفتے ایک سوال بھی پوچھا جاتا ہے جس سے بھی لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ ہم اس سلسلے کو مزید بہتر سے بہتر کر سکیں اور آپ لوگوں کی امیدوں پر پورا اتر سکیں ۔ آج جب کوئی گلدستہ کی تعریف کرتا ہے تو بہت حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔کیونکہ اس گلدستے کو پھول سے گلدستہ بنتے بنتے تین سال لگ گئے ۔مگر خوشی ہے کہ آج اس گلدستہ کی خوشبو گھر گھر پہنچ رہی ہے اور لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ اور یہ لوگوں میں خوشیاں بکھیرنے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے ۔{jcomments on}
121