گذشتہ روز کلر سیداں بازار میں کچھ اوباش نوجوانوں نے بازار میں لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ خانی کی وہ موقع سے موٹرسائیکل بھگا کر نکل لیے بعد میں آنے والے شریف لڑکوں کی لڑکیوں نے درگت بنا ڈالی،بے گنا ہوں کو پہلے تو سمجھ نہیں آئی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے لیکن جب کچھ شرفاء نے چھوڑ چھڑا کروا کر ان کی بے گناہی ثابت کی تو لڑکوں کی جان میں جان آئی اور ان کے الفاظ ان عورتوں کے لیے کچھ ایسے تھے کہ جب بازاروں میں ننگی پھرو گی تو ایسا تو ہو گا بے ہودہ لباس پہن کر بازاروں میں گھومتی ہو تمہارے گھر یا تو کوئی مرد نہیں یہ سن کر عورتیں اپنے راستے ہو لیں۔ اس موقع پر مجھے اکبر آلہ آبادی کا ایک شعر یاد آ گیا۔
بے پردہ نظر آئیں چند بیبیاں جو کل، اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑھ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا،کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
بنت حوا کو پردے کا شرعی حکم ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ماہ رمضان میں عورتیں عید کی خریداری کی غرض سے عام حالات سے بھی زیادہ شہروں میں گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں، اکثر آدھے کپڑے یا بے ہودہ لباس نوجوان نسل کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں، حجاب کے نام پر پہنے جانے والے بے ہودہ اور تنگ گاؤن جن میں جسم کا ہر عضو اپنی کہانی بیان کرتا خود ہی نظر آتا ہے،کہیں تنگ پاجامے تو کہیں ننگے ٹخنے چیخ چیخ کر اپنی طرف بلاتے نظر آتے ہیں، اس قسم کے لباس پہن کر شہروں میں پھرنے والی عورتوں کو اگر کوئی تنگ کر دے تو اس میں تنگ کرنے والے سے زیادہ ان عورتوں کا قصور ہے ان کے لباس کا قصور ہے جو سرعام دعوت گناہ دے رہا ہوتا ہے، اور دور حاضر میں بازاروں میں مردوں سے زیادہ عورتیں نظر آتی ہیں، حالانکہ بازار مسلمان مردوں کے ایمان کے لیے بھی غیر محفوظ قرار دئیے گئے ہیں۔
مسلمان ہونے کے ناطے سب سے پہلا فرض تو عورت کا اپنا ہے کہ اپنے آپ کو اسلام کے دائرے میں ڈھالنے کی کوشش کرے اور باپردہ رہے، اسلام کی رو سے گھر عورتوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہیں اور تب تک محفوظ رہتی ہیں جب تک اپنے گھر کی چاردیواری کے اندر رہیں، دوسرا بڑا حق کسی بھی خاندان کے مرد حضرات کا ہے کہ عورتوں کو پردے کی پابندی کروائیں، دنیاوی ضروریات کے لئے باپردہ عورتوں کا گھر سے نکلنا ناجائز نہیں ہے آج کل کلرسیداں اور گردونواح میں تو عورت کو گاڑیاں چلاتے بھی دیکھا جاتا ہے اس میں اگر بے پردگی نہ ہو تو کوئی ممانعت نہیں ہے، باپردہ ایک باصلاحیت اور مجبور عورت کو نوکری کرنے یا گھر سے نکلنے کی بھی پابندی نہیں، لیکن یہ طے ہے کہ جب بھی حوا کی بیٹی بے پردہ ہوئی اس کو بیدردی سے نوچا گیا۔
یاد رکھیے باحیا ماں اور بیٹی سے ہی ایک باحیا معاشرہ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے باپردہ عورت ہی محفوظ ہے عریاں لباس اور بے پردگی عورت کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتی اوباش لوگوں کی بری نظروں اور ان کے جملوں سے بچنے کے لیے عورتوں کے لیے لازم ہے کہ وہ باپردہ گھروں سے نکلیں ورنہ دوسروں کوگنہگار ٹھہرانا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔ رمضان المبارک کی برکت سے اللہ پاک ہر مسلمان عورت کو پردہ کی نعمت سے نوازیں اور مردوں کی نگاہوں میں حیا اور شرم عطا کریں۔
177