نہایت افسوس سے لکھنا پڑا کہ آج ہمارے وطن عزیز میں تعلیم سے اچھا کوئی اور بزنس نہیں ہے اعلی اور معیاری تعلیم کا جو مشن حکومت نے اپنے سر لیا ہوا ہے اس میں چالیس فیصد حصہ نجی تعلیمی سیکٹر کا بھی شمار کیا جاتا ہے گوکہ ریاست کی اولین ترجیحات میں اعلی و معیاری تعلیم کا فروغ اور اس سلسلے میں تمام تعلیمی سہولیات کی فراہمی شامل ہے تاہم سو فیصد نتائج حاصل کرنے کے لیے ہر ریاست میں نجی سیکٹر کا کلیدی کردار ہوتا ہے لیکن نجی تعلیمی سیکٹر کے بارے میں یہ بات عام ہوچکی ہے کہ یہاں تعلیم قومی ذمہ داری اور مشن کے تحت نہیں بلکہ کاروباری نقظہ نظر کے تحت فراہم کی جاتی ہے ہو سکتا ہے کہ اس کام میں تمام نجی تعلیمی سیکٹر شامل نہ ہوں مگر ایک محتاط اندازے کے مطابق 95فیصد نجی سیکٹر میں فروغ تعلیم کے دعویدار محض کاروبار کی نیت سے ہی علم کی روشنی پھیلانے کا ڈھونگ رچا رہے ہیں یہاں پر قابل ذکر بات یہ ہے نجی تعلیمی سیکٹر میں جو تعلیمی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ان کے اخراجات کو سامنے رکھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ماہانہ فیس کی مد میں ان کی جانب سے طالب علموں سے وصول کیے جانے والے معاوضے پچاس فیصد بھی درست نہیں ہیں تاہم ایسے نجی تعلیمی سیکٹر کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ جو تعلیمی سہولیات کا جھانسہ دیکر والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ والدین چاہے ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول ہی کیوں نہ مشکل ہو اپنے بچوں کو ہر صورت میں اعلی اور معیاری تعلیم فراہم کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور اسی طرح 70فیصد والدین کاروباری تعلیم فروشوں کے جھانسے میں آ جاتے ہیں جو محض تشہیر ہی کی بنیاد پر چل رہے ہیں اور بنیادی تعلیمی سہولیات کی فراہمی پر لگائے جانے والے پیسے کو بھی تشہیری مہم کا حصہ بنا دیتے ہیں کیونکہ تعلیمی سہولیات اور معیار تو ان کے بس کی بات نہیں اس لیے اس سارے معاملے پر پردہ ڈالنے کے لیے تشہیری مہم کا سہارا لے کر غریب والدین کو بیو وقوف بنایا جاتا ہے پرائیوٹ اداروں میں اساتذہ کی سلیکشن بھی میرٹ پر نہیں ہوتی اور نہ ہی سہولیات میرٹ پر فراہم کی جاتی ہیں جبکہ تعلیمی اداروں میں سب سے اہم ایشو ماہانہ تنخواہوں کا سامنے آیا ہے جو کہ ان کی پالیسی کا مضبوط ترین حصہ بن چکا ہے محکمہ تعلیم میں اپنے سکول کو رجسٹرد کرانے اور تعلیمی بورڈ سے الحاق لینے کے لیے اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کے مطابق ماہانہ تنخواہ بڑھا چڑھا کر لکھی جاتی ہے جبکہ حقیقت اس کے بلکل برعکس ہوتی ہے یہاں پر ایسے پرائیوٹ سکول بھی ہیں جن کی ماہانہ تنخواہیں پندرہ سو سے شروع ہو کر تین ہزار روپے پر ختم ہوجاتی ہیں موسم سر ما ،گرما اور دیگر تعطیلات کی کوئی تنخواہ نہیں ملتی بلکہ اگر کوئی ٹیچر بیماری یا کسی مجبوری کے تحت چھٹی کرلے تو اس کی یومیہ تنخواہ کے حساب سے فورا کٹوتی کر لی جاتی ہے جس کی وجہ سے اساتذہ خصوصا لیڈی اساتذہ ذہنی کوفت ، اذیت اور مالی بدحالی کا شکار ہیں مگر وہ کسی سے کھل کر شکائت بھی نہیں کرسکتی کیونکہ اس طرح ان کی ملازمت خطرے میں پڑسکتی ہے ۔ ملک کے دیگر شہروں کی طرح تحصیل کلر سیداں میں پرائیوٹ سکول ایسو سی ایشن کے مطابق 99پرائیوٹ سکول ہیں جو کہ شاہ باغ ، راجہ مارکیٹ ، چوک پنڈوڑی ، کلر سیداں ، دھمالی ، چوآخالصہ ، دوبیرن ، سدا کمال ، سکوٹ ،ممیام ، باغجمیری ، دددھیلی ، سکوٹ جوڑ ، سر صوبہ شاہ ، پھلینہ و دیگر علاقوں میں قائم ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چند سکولوں کے علاوہ باقی تمام سکول حکومت کی جاری کردہ پالیسی پر پورا نہیں اترتے افسوس ان اداروں پر جو شٹر نما ، دوکان نما ، بند کمروں کی طرح گلی کوچوں میں کھلے ہوئے ہیں اور تعلیم کا مذاق اڑارہے ہیں نہ تو یہ سکول کشادہ ہیں اور نہ ہی ماحول دوست اسی طرز پرتحصیل کلر سیداں میں بنے ان گنت سکول دوکان نما شڑ دار دوکانوں میں قائم ہیں جو ننھے منھے بچوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں ایک طرف تو یہ ادارے ہیں تو دوسری طرف مشہور زمانہ اورنامور ادارے ہیں جن کی ماہانہ فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ عام آدمی تو کیا اچھے خاصے خوشحال لوگ بھی ان اداروں کے پاس سے گزرنے سے بھی ڈرتے ہیںیہ الگ مسئلہ ٹھہرا کہ گلی کوچوں اور چباروں پر بنے پرائیویٹ اسکول میں داخلے کے دنوں میں تو چپڑاسی بھی انگریزی بولتا نظر آتا ہے بعدا زاں داخلے کے چند ماہ بعد یہ راز بھی افشاں ہوتا ہے کہ انگریزی پڑھانے والے ٹیچرز بھی انگریزی پڑھانے سے قاصر ہیں معاملہ یہی ختم نہیں ہوتا بڑا انگریزی میڈیم سکول ہو یا چھوٹا چونچلے اپنے عروج پر ہوتے ہیں گوروں کے تمام تہوار منانا تو ان پر فرض ٹھہرا مذہبی فنکشنز میں بھی پیسے کو پانی کی طرح بہایاجاتا ہے جبکہ اخراجات کی مدمیں آنے والا تمام خرچہ والدین کی جیب سے پورا کیا جاتا ہے 5سو ، 1000نکلوانا تو عام سی بات ہے پھر ارتھ ڈے ، سے لیکر یلو ، گرین ، بلو ، ریڈ ڈے پر دن کی مناسبت سے لباس کی تیاری الگ ان سب پر رقم خرچ کرنے کے بعد سکون کا سانس لینا کسے نصیب ہے بچوں کو خرگوش بنانے کے لیے کپڑے ضروری ہیں ، تو کبھی شیر اور بھالو کے مختلف اقسام کے فینسی ڈریس خریدنا سو اس قسم کے فینسی ڈریس کی جن کی قیمت 500روپے سے تین ہزار روپے تک ہوتی ہے جنہیں فقط بچہ 15سے 20منٹ پہنتا ہے خریدنے پڑتے ہیں ۔یہ الگ بحث ہے کہ سکول انتظامیہ کے ساتھ فینسی ڈریسز بنانے والوں کا باقاعدہ معائدہ ہوتا ہے اور ہر لباس پر سکول انتظامیہ اپنا کمیشن رکھتی ہے قابل ذکر بات یہ کہ کتابوں اور کاپیوں کی خریداری بھی سکول ہی سے ہوگی اس کے علاوہ سکول کا نصاب خریدنا منع ہے تعلیم کے ساتھ ساتھ سٹیشنری کا کاروبار بھی پرائیوٹ سکول مالکان سر انجام دے رہے ہیں اپنی کتابیں اور کاپیاں خود ہی پرنٹ کروا کر بچوں کو مہنگے داموں بیچی جاتی ہیں جن کی قیمت مارکیٹ ریٹ سے 50فیصد زیادہ ہوتی ہے اس کے علاوہ سکول بیج اور تمام سٹیشنری کا سامان سکول انتظامیہ سے خریدنا ضروری ہے جو کہ والدین کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں تحصیل کلر سیداں میں چند پرائیویٹ سکول والدین کو دونوں ہاتھو ں سے لوٹنے میں مصروف عمل ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے پرائیویٹ سکولوں کی مانیٹرنگ کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے معیار ی تعلیم کے فروغ کے لیے سرکاری سکولوں کو چیک کرنے کے لیے افسران کی بھر مار ہے جبکہ پرائیوٹ تعلیمی ادارے بے لگام گھوڑے کیا اس طرح تعلیمی اہداف کا حصول ممکن ہے ؟حکومت پنجاب یکساں نصاب تعلیم کے فروغ کے لیے بڑے بڑے دعوے کرتی ہے ۔کیاپالیسی کے مطابق تمام سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں ایک جیسا نصاب تعلیم رائج ہے ؟کیا پالیسی کے مطابق کم سے کم اجرت 13000/ہزار روپے ماہوار کاا طلاق ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر نہیں ہوتا ؟ جب یکساں نصاب تعلیم حکومت پنجاب کا نعرہ اور تعلیم سب کے لیے حکومت کا مشن تو پھر امتحانات کا دوہرا معیارکیوں ؟ سرکاری سکولوں کے بچوں کے گریڈ 5اور گریڈ 8کا امتحان PECلے اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے اس سے اس لیے مستثنی کہ ان کی کارکردگی کا پول نہ کھل جائے ؟ پرائیویٹ سکولز کی لوٹ مار اور غریب والدین کو بیوقوف بنانا اور تدریسی تضاد سمجھ سے بالاتر ہے شاید ارباب اختیار کو اس کی وجہ معلوم ہو اگر انہیں اس کے سد باب کا کوئی حل معلوم ہے تو خدارا اس پر عمل درآمد کرنے میں تاخیر نہ کریں کیونکہ آنے والی نسلیں آج کے انقلابی اقدام کی محتاج ہیں ۔{jcomments on}
236