قارئین کرام! وطن عزیز کے ہر ادارے میں شتر بے مہار کی طرح کام ہوتا ہے، کوئی ادارہ قواعد و ضوابط کے مطابق کام کرنے کو ترجیح نہیں دیتا بلکہ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ ادارہ میرے مطابق چلے
، یہی حالت زار پاکستان میں کاروبار کرنے والوں کی ہے، جو یہ چاہتے ہیں کہ حکومتیں ہماری منشاء کے مطابق چلیں، ادارے ہم سے پوچھ کر کاروباری قواعد و ضوابط طے کریں
اور پھر ہم جو مرضی کریں ہمیں پوچھنے والا بھی کوئی نہ ہو۔ایسی ہی حالت کا سامنا ہر گلی چوک چوراہے اور شہر میں موجود جنرل سٹور، کریانہ سٹور، گروسری سٹور، کراکری شاپ، چکن بیف مٹن شاپ، سبزی و پھل شاپ، دودھ دہی شاپ، ریستوران پر عوام کو کرنا پڑتا ہے جہاں ہر دکاندار کے من پسند ریٹ سے عوام کی جیبوں پہ ڈاکے پڑتے ہیں اور آج تک اس معاملے کو سنجیدہ لینے کی کسی حکومت نے کوشش تک نہیں کی
، وہی پرانا گھسا پٹا نظام چل رہا ہے جو سالوں پرانا ہے۔گھریلو روز مرہ کی ضروریات سبزی، دالیں، پھل، گوشت کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے فرائض اسسٹنٹ کمشنرز، میونسپل افسران، تحصیلداروں اور دیگر افسران کو تفویض کیے گئے ہیں جن کے پاس پہلے ہی بہت ساری دیگر محکمانہ ڈیوٹیاں ہیں
اور انکی فیلڈ میں انسپکشنز بھی ریگولر ہوتی ہیں۔ فروٹ اور سبزی منڈیوں کے کھلنے سے ہی حکام کی نااہلی دیکھنے میں آتی ہے کیونکہ مارکیٹ کمیٹی کے جن اہلکاروں کا کام موقع پہ موجود ہونا ہوتا ہے وہ اہلکار شاذ و نادر ہی اشیاء کی اسپاٹ آکشن ریٹ پر سروے کرتے نظر آتے ہیں۔منڈی کی بولی کے بعد مارکیٹ کمیٹی کے دفاتر کے ڈیسکوں پر تیار کی
جانے والی ریٹ لسٹیں بھی واضح وجوہات کی بناء پر خودساختہ ہوتی ہیں اور یہ فہرستیں نہ تو دکانداروں میں مناسب طریقے سے تقسیم کی جاتی ہیں اور نہ ہی دکانداروں کی جانب سے صارفین کو دکھائی جاتی ہیں اور منافع خوروں کی جانب سے جتنی رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے
عوام انہیں دینے پہ مجبور ہوتی ہے۔بجلی کے مہنگے بل پہلے ہی غریب اور متوسط طبقے کے گھریلو بجٹ کو تباہ کر رہے ہیں اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا غیر موثر طریقہ کار ان کے لیے کچن کے انتظام کو مزید خراب کر رہا ہے جس کی وجہ سے ہر شخص پریشانی کا شکار ہے اور لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اس بابت تازہ ترین واقعات اسی ہفتے رپورٹ بھی ہوئے ہیں۔آج کی اس تحریر کا مقصد یہ ہے
کہ اس طریقہ کار پہ فوکس کیا جائے کہ اس نظام کو بہتر کیسے کیا جا سکتا ہے، سنجیدہ حلقوں میں گفت و شنید نے اس جانب اشارہ دیا ہے کہ ٹریفک وارڈنز کی جانب سے استعمال کیے جانے والے ای چالان کی طرز پر قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک موثر طریقہ کار متعارف کروائیں۔ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا موجودہ نظام ریٹ لسٹوں کے نفاذ میں بہت سی خامیوں کی وجہ سے صارفین کو کوئی ریلیف دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے
۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہر صارف ریٹ لسٹوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے بشرطیکہ یہ ایریا مارکیٹ کمیٹی کے ویب پیج پر آویزاں ہوں اور فوڈ اتھارٹی کے افسران کو خصوصی طور پر بااختیار اور لیس کیا جائے۔ موقع پر ای چالان جاری کریں اور بازاروں میں ان کی باقاعدہ چھان بین کے دوران منافع خوروں سے جرمانے وصول کریں
۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب ”پنجاب فوڈ اتھارٹی” کو اس بابت اختیار دیں یا اس طرز پہ ایک فورس تشکیل دی جائے جن کو مکمل اختیار دیا جائے کہ وہ مارکیٹ کی قیمتوں کی مکمل نگرانی کرے اور ٹریفک وارڈنز کی طرز پر موقع پر ہی ای جرمانے وصول کرے اور ریستورانوں میں معیار اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیز کرے۔۔ اس حوالے سے یہ بھی تجویز ہے
کہ خصوصی ہیلپ لائن نمبر جاری کیا جائے، جس صارف کو بازار میں قیمتوں کے حوالے سے تحفظات ہوں یا ناجائز منافع خوری ہو رہی ہو تو وہ صارف ہیلپ لائن پہ کال کر کے متعلقہ ذمہ دار کو موقع پہ بلا سکے اور اپنا حق استعمال کر سکے اور اس سلسلے میں پولیس کی معاونت بھی انتہائی ضروری ہے
کہ صارف کو تحفظ حاصل ہو کہ جس کیخلاف شکایت درج کرا رہا ہے وہ اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔اگر موجودہ پنجاب حکومت عوام کو واقعی ریلیف دینا چاہتی ہے تو سنجیدہ حلقوں کی اس سوچ پہ حکومت عملدرآمد کر کے عوام کو فوری ریلیف دے سکتی ہے اور منافع خوروں کو لگام دی جا سکتی ہے۔۔ والسلام