پتنگ بازی ہمارے ہاں ایک مشہور کھیل ہے جو عرصہ دراز سے ہمارے لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے اسکی وجہ یہ بھی کہ پتنگ بازی باقی کھیلوں کی نسبت ایک سستا کھیل ہے جو کہ ہر کسی کی پہنچ میں ہے ہم اسکی تاریخی حوالے سے بات کریں تو پتنگ اڑانے کا کھیل چین سے شروع ہوا جو بعد میں جاپان سمیت دنیا بھر کے لوگوں میں بہت مقبول ہو گیا مشرقی ممالک میں اسکو بہت پسند کیا جاتا ہے خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں لوگ دن رات کا فرق کئے بغیر پتنگ بازی کے کھیل کو کھیلتے ہیں بات کریں ہم اپنے ملک پاکستان کی تو تقسیم ہند کے بعد یہ کھیل پاکستان میں بہت مقبول رہا پاکستان میں اس پتنگ بازی کو موسم سرما کے آخر میں اور موسم بہار کی آمد پر ایک تہوار کی صورت میں منایا جاتا رہا ہے جسکو بسنت کا نام دیا جاتا ہے بسنت پاکستان کا اور خاص طور پر بڑے شہروں کا مقبول تہوار تھا اور لوگ اسے بہت جوش و خروش سے مناتے تھے بسنت کے دن آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے بھرا ہوتا تھا ان خوبصورت پتنگوں کو ڈور اور مانجے سے آسمان میں اڑایا جاتا تھا بسنت کا تہوار منانے کے لئے دنیا بھر کے سیاح اور خاص طور پر بیرون ملک بسنے والے پاکستانی یہاں کا رخ کرتے تھے یہ تہوار ہر عمر کے لوگوں کو یکساں طور پر خوشی کا موقع فراہم کرتا تھا پتنگ بازی کے مقابلے منعقد کئے جاتے تھے واحد ٹی وی چینل پی ٹی وی ہوتا تھا جس پر پتنگ بازی کے حوالے سے خصوصی گانے اور پروگرام نشر کیے جاتے تھے جو لوگوں کی خوشیوں کو مزید دوبالا کرتے تھے یہ تہوار کسی عید سے کم نہ ہوتا تھا اس تہوار کے لیے لاہور بہت مشہور تھا مگر دیگر شہروں جن میں راولپنڈی بھی شامل یہاں بھی یہ جوش و خروش سے منایا جاتا تھا مگر اب پچھلے کئی برسوں سے پاکستان میں اس تہوار یعنی پتنگ بازی پر پابندی لگا دی گئی ہے اور بسنت کا تہوار اب نہیں منایا جارہا جسکی بنیادی وجہ کیمیکل ڈور کے استعمال کی وجہ سے بے شمار قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہے یہ تہوار پتنگ بازی جو پہلے کبھی عوام کو خوشی پہنچانے کا باعث تھی اب لوگوں کے لئے موت کا پروانہ بن چکی ہے کیونکہ اب جرائم پیشہ لوگ کیمیکل والی ڈور کا استعمال کر کے معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں اور آئے دن ہمیں پتنگ بازی کے نتیجے سے معصوم بچوں سمیت کئی قیمتی جانوں کی اموات کی خبریں ملتی رہتی ہیں حکومت کی طرف سے پابندی کے باوجود راولپنڈی اور گردونواح میں پتنگ بازی کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے جو یہاں کی انتظامیہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے پابندی کے باوجود یہاں دوکاندار اور بڑے ڈیلر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چھپ چھپا کر پتنگ اور ڈور کو فروخت کر رہے ہیں شہریوں کے جان و مال کی حفاظت انتظامیہ کا فرض ہے اس لئے غیر قانونی طور پر پتنگیں اور مہلک ڈور تیار کرنے والوں کے ساتھ ساتھ پتنگ بازی کا سامان فروخت کرنے والوں اور پتنگ بازی کرنے والوں کے خلاف بھی سخت ایکشن لینا ہو گا تاکہ لوگوں کی جان کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے ورنہ نجانے کتنے اور لوگ اس قاتل ڈور کا شکار بنیں گے اب موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی قاتل کھیل پتنگ بازی پر پابندی کے باوجود وفاقی دارالحکومت سے جڑے شہر راولپنڈی میں پتنگ بازی کا سلسلہ سرعام جاری ہے حالانکہ اس دفعہ علاقائی سطح پر پولیس کی جانب سے پتنگ بازی کے خلاف سیمینار اور آگاہی واک کا اہتمام کیا گیا مگر اسکا بظاہر کوئی اثر نظر نہیں آرہا اور پولیس بھی ان منچلوں کو روکنے میں ناکام نظر آرہی ہے پولیس چند بچوں کو جو گھروں کی چھتوں پر پتنگیں اڑا رہے ہوتے انکو تو گرفتار کرتی جبکہ جو اسکی تیاری اور فروخت میں ملوث انکے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی جو کہ انتظامیہ اور پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی ہے مگر دوسری جانب شہری بھی حکومت اور انتظامیہ سے اپیل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان سماج دشمن عناصر جو کیمیل لگی دھاتی ڈور بناتے ہیں اور اس قاتل ڈور سے کئی ہلاکتیں ہوتی ہیں معصوم بچوں سمیت شہریوں کے گلے کٹتے ہیں انکے خلاف کاورائی کی جائے اور اس تہوار کو محفوظ بنا کر دوبارہ عوام کے لیے کھولا جائے کیونکہ یہ پتنگ بازی انکے نزدیک ثقافتی ورثہ کی حیثیت رکھتا ہے آج جب ہر طرف لوگوں میں مایوسی کے سائے چھائے ہوئے ہیں ایسے میں یہ تہوار انکی خوشی کا بحث بن سکتا ہے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دھاتی تار فروخت کرنے والے تاجر اور ان کو استعمال کرنے والے لوگوں کو گرفتار کرے اگر حکومت یا کوئی بھی قانون نافذ کرنے والا ادارہ عزم کر لے تو پولیس کے لئے خونی ڈور کی تیاری اور فروخت کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے سخت اقدامات کرنا کچھ مشکل نہ ہوگا یہ مسئلہ وسائل کا نہیں بلکہ نیک نیتی کے فقدان کا ہے اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پولیس اس جان لیوا کھیل پر کیسے قابو پاتی ہے یا پھر ایسے ہی معصوم جانیں اس خونی کھیل کی زد میں آکر دم توڑتی رہیں گی
124