494

پاکستان میں شرح خواندگی

پروفیسر محمد حسین
بلاشبہ تعلیم ایسا زیور ہے جس کے بغیر انسان کسی بھی شعبہ زندگی میں ترقی نہیں کر سکتا آئین پاکستان کے مطابق ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے اس حوالے سے ہر دور حکومت میں تعلیم کو عام کرنے کے بلند و بانگ دعوے کئے گئے تعلیمی پالیسیاں بنائی جاتی رہی ہیں جن میں سے بعض تو منظر عام پر بھی نہ آ سکیں1947سے لے کر آج تک تعلیمی پالیسوں اور منصوبوں کا اجراء ہوا اور زرائع تعلیم پر نئے نئے تجربات آزمائے گئے لیکن گزشتہ اکہتر برسوں سے پاکستان میں شعبہ تعلیم پر وہ توجہ نہ دی گئی جس طرح توجہ دینے کی ضرورت تھی اسی وجہ سے اب تک ہماری شرح خواندگی میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ دُنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں پر شرح خواندگی سو فی صد تک ہے گرین لینڈ‘فن لینڈ‘اور ناروے جیسے ممالک میں شرح خواندگی سو فی صد ہے جبکہ امریکہ‘برطانیہ‘جاپان‘اور شمالی کوریا کی شرح خواندگی ننانونے فی صد ہے جبکہ جنوبی کوریا میں شرح خواندگی چھیانونے فی صد ہے پاکستان کی بات کی جائے تو ہمارے قومی بجٹ کا بمشکل صرف دوسے تین فی صد شعبہ تعلیم پر خرچ کیا جاتاہے تو شرح خواندگی اسی حساب سے اکہتر سالوں میں بمشکل انسٹھ فی صد ہے ۔ اگر جنوبی ایشا کے دیگر ممالک کی شرح خواندگی کا جائزہ لیا جائے تو مالدیپ میں شرح خواندگی ننانونے فی صد ہے۔ جبکہ سری لنکا بانوے فی صد ‘ بنگلہ دیش بہتر فی صد‘بھارت ستر فی صد‘ نیپال تراسی فی صد‘بھوٹان انسٹھ فی صد اور افغانستان میں شرح خواندگی صرف تیس فی صد ہے۔ پاکستان میں حکومت کی طرف سے اس شعبے میں خاطر خواہ فنڈ مختص نہ کئے جانے کے سبب پاکستان میں تعلیم کا شعبہ بزنس کی شکل اختیار کر گیا ہے۔گلی گلی کوٹھیوں اور چوپاروں میں تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں جہاں فیسیس تو بٹوری جاتی ہیں مگر تعلیم کا نشان تک نہیں ملتا جب کسی بھی دوسرے تجارتی ادارے کی طرح تعلیمی ادارے کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا بن جائے تو وہ طلباء کو تعلیم دینے کی بجائے انہیں گاہک ہی تصور کرے گا ہمارے ملک میں تقریبا دو کروڑ تیس لاکھ بچے اس وقت سکول سے باہر ہیں پورے ملک میں تریپن فی صد بچے پرائیویٹ سکولوں میں اور 45فی صد بچے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی انسٹھ فی صد ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ کبھی سوچا ہے اس خواندگی کا معیار کیا ہے؟ اس کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ مشکل سے اپنا نام لکھ سکتے ہیں انہیں بھی خواندہ تصور کیا جاتا ہے۔ اگر ان کو نکال کر دیکھا جائے تو پاکستان میں حقیقی شرح کوخواندگی ستائیس فی صد کے قریب ہے اور یہ ہمارے ملک کا بہت بڑا المیہ ہے پاکستان میں تعلیم کے لیے مختص کئے جانے والا بجٹ دو طرح سے ہوتا ہے یہ بجٹ ایک تو نئے منصوبوں پر خرچ ہوتا ہے اور دوسرا پرانے منصوبے چلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے پاکستان میں تعلیمی بجٹ کا ستر فی صد تو تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے اور جو باقی بچتا ہے اس سے نئے منصوبے شروع کئے جاتے ہیں نئے منصوبوں پر خرچ ہونے والا تیس فی صد بجٹ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے پنجاب میں ایک ہی جماعت نے دس سال حکومت کی لیکن اس حکومت نے تعلیم اور ذریعہ تعلیم کے بارے میں کسی نے سوچا تک نہیں ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ذریعہ تعلیم انگریزی ہو سرکاری و مادری زبان اردو ہو اور جب تک ہم اس بنیادی مسئلے کو طے نہیں کرتے ہم قطعاً درست سمت میں ترقی نہیں کرسکتے ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا کے چالیس فی صد طلباء اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل نہیں کر رہے جو کہ تعلیم کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ ہے پاکستان میں سابق حکومتیں شرح خواندگی میں اضافہ کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ اب موجودہ حکومت پاکستان تحریک انصاف کی ہے جس کے منشور میں تعلیم کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ انتخابات سے پہلے کہا گیا تھا کہ سکولوں سے باہر دو کروڑ سے زاہد بچوں کو سکولوں میں لے آئیں گے۔ اس حوالے سے قوم کو یہ مثردہ سنایا گیا کہ ملک میں آئندہ یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے گا۔ اس نظام کے تحت ملک میں مدرسوں کے نصاب کو سرکاری سکولوں کے تعلیمی نصاب کے ہم پلر بنا دیا جائے گا اور وفاقی حکومت تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ مشاورت اور اشتراک عمل سے یہ ہدف حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کرے گی اور تعلیم کو عام کرنے کے لیے بہت سے اقدام کئے جائیں گے سرکاری تعلیمی اداروں کی بہتری پر توجہ دی جائے گی دوسری اہم بات یہ ہوگی کہ سرکاری سکولوں میں شام کلاسز کا اجراء کیا جائے گا۔ تاکہ سکول سے باہر کوئی بچہ نہ رہے پاکستان میں کم شرح خواندگی ملک کی معاشی ترقی کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہے بلاشبہ خواندگی پائیدار ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے اور بنیادی عناصر میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے ملک میں شرح خواندگی میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں یکساں تعلیمی نظام رائج کیا جائے اس کے علاوہ سرکاری سکولوں میں ٹیچر ز کی تعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ مزید سکولوں کی سہولیات میں اضافہ کیا جائے دوسرا ملک میں ایسا قانون بنایا جائے کہ جو کوئی اپنے بچوں کو سکول داخل نہ کروائے انہیں جرمانہ کیا جائے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملک کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کے کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے جنگی بنیادوں پر کام شروع کرنے اور نصاب کو جدید دور سے ہم اہنگ کر کے تمام بچوں کے لیے کم از کم میٹرک تک مفت تعلیم کا حصول یقینی بنائے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں