118

پاکستان میں تعلیم کا بحران! ایک حقیقت/عامر محمود

پاکستان کے تعلیمی شعبے کی زبوں حالی کو بنیاد بنا کر امریکہ کے ایک ادارے ولسن سنٹر کی جانب سے نادیہ ناویوالہ نے “پاکستان ایجوکیشن کرائسس”Pakistan Education Crisis: The Real Story” کے نام سے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں انہوں نے پاکستان کے تعلیمی شعبے کو درپیش مسائل کا ایک نئے انداز سے تجزیہ پیش کیا ہے۔ ہمارے زیادہ تر تجزیہ نگار اور دانشور تو تعلیمی شعبے کی پسماندگی کا ذمہ دار اس شعبے کے لئے مختص کردہ کم وسائل کو گردانتے ہیں لیکن اس رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی شعبے کا اصل مسئلہ کم وسائل نہیں بلکہ ان وسائل کا درست استعمال نہ ہونا ہے۔ عالمی ادارے یونیسکو کی جانب سے شعبہ تعلیم کے لئے وضح کردہ عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کو اپنے بجٹ کا 15سے20فیصد حصہ تعلیم کے لئے مختص کرنا چاہئے جبکہ پاکستان کے تمام صوبے اس وضح کردہ معیار سے کہیں بڑھ کر یعنی 17سے 28فیصد تک تعلیم پہ خرچ کر رہے ہیں۔ جبکہ سال2012میں عالمی سطح پر تعلیمی شعبے کے لئے مختص کردہ وسائل کا اوسطاًحجم 13.7فیصد تھا۔ یعنی کہ ہم عالمی سطح پر تعلیم کے لئے وضح کردہ معیار سے کہیں بڑھ کر خرچ کر رہے ہیں بلکہ اس میں ہر سال اضافہ بھی کر رہے ہیں۔ اور آج ہمارا تعلیمی بجٹ ہر سال بڑھتے بڑھتے اب تقریباً ہمارے فوجی بجٹ کے برابر آ چکا ہے۔ لیکن تعلیمی شعبے کو درپیش مسائل جوں کے توں ہیں۔ تعلیم کو فروغ دینے کے سلسلے میں عالمی سطح پر کئے گئے معائدوں کے تحت کوئی بھی اہداف ہم حاصل نہیں کر سکے۔ ایک طرف تو کروڑوں بچے ایسے ہیں جو سکولوں سے باہر ہیں یعنی کہ ان کی رسائی تعلیم تک نہیں ہے جبکہ دوسری طرف وہ بچے جو سکولوں میں جاتے ہیں، جو سکول جانے والی عمر کے بچوں کا تقریباً60فیصد ہیں , ان کو بھی تعلیم کی بہترین سہولیات دستیاب نہیں ہیں، بہترین تعلیمی ماحول فراہم نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیمی کارکردگی اور سیکھنے کی صلاحیتیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ تعلیم کے لئے مختص کئے جانے والے وسائل میں سے زیادہ تر حصہ اساتذہ اور دیگر عملے کی تنخواہوں کی مد میں خرچ ہو جاتا ہے جبکہ اساتذہ کی کارکردگی کو پرکھنے کا کوئی بندوبست ہی نہیں ہے۔ سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو سبق تو یاد ہے لیکن لفظوں کی پہچان نہیں۔نجی اداروں الف اعلان اور ساہی کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق سرکاری سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کاپورے تعلیمی سال کا تقریباً ایک تہائی وقت غیر تعلیمی سرگرمیوں میں گزرتاہے جیسے پولیو مہم، ڈینگی مہم، الیکشن، امتحانات کی ڈیوٹی اور دیگر سروے وغیرہ۔ ان سب کاموں کا حصہ بننے کے علاوہ اساتذہ کے لئے مختلف قسم کی تربیتی ورکشاپس بھی ان کو سکولوں میں تعلیمی عمل سے دور رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ میں اساتذہ کے سیاسی کردار پر بھی بات کی گئی ہے نادیہ ناویوالہ کی تحقیق کے مطابق اکثر اساتذہ کی تعیناتی میں سیاسی لوگوں کا ہاتھ شامل ہوتا ہے۔ اور یہ سیاسی لوگ اپنی انتخابی مہم کیلئے اور لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے ان اساتذہ کا استعمال کرتے ہیں۔ ملک کے اکثر دیہی اور نیم دیہی علاقوں میں استاد کو چونکہ پڑھا لکھا ، سمجھدار اور معتبر آدمی مانا جاتا ہے، اس لئے لوگوں کو متاثر کرنے اور الیکشن مہم کو کامیاب بنانے کے لئے اساتذہ کا سیاسی استعمال کیا جاتا ہے، اساتذہ کا سیاسی کردار اس حوالے سے بھی اہم ہے کیونکہ الیکشن کے دنوں میں اساتذہ کو الیکشن کے عملے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ ان تمام خدمات کے بدلے میں ایسے اساتذہ کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے ۔ وہ اکثر سکولوں سے غیر حاضر رہتے ہیں، اپنے کاروبار چلاتے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔ سکول میں پڑھنے والے بچوں کی سیکھنے کی صلاحیتیں بہتر ہوں یا نہ ہوں اساتذہ کو ہر مہینے کی تنخواہ بلا ناغہ ملتی رہتی ہے، بلکہ ہر سال تنخواہ میں باقاعدگی کے ساتھ اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔ سکول سے غیر حاضر ہونے والے اساتذہ کی شرح کو کم کرنے کے لئے صوبائی حکومتوں نے اساتذہ کی حاضری کے لئے بائیو میٹرک نظام متعارف کروائے ہیں، اس کے علاوہ مانیٹرنگ کی ٹیمیں بھی تشکیل دی ہیں، جن سے پنجاب میں سکولوں سے غیر حاضر ہونے والے اساتذہ کی شرح 20فیصد کم ہو کر 6فیصد تک رہ گئی ہے، جبکہ خیبر پختون خواہ میں یہ شرح30فیصد سے کم ہو کر اب 13فیصد ہو گئی ہے۔ جبکہ اب تک کوئی ایسا نظام متعارف نہیں کروایا جا سکا جس سے اس بات کا بھی پتا چلایا جا سکے کہ بچوں کے سیکھنے کی صلاحیتوں میں کتنا اضافہ ہوا یا کتنی بہتری آئی۔ ہمارا سارا زور بجٹ بڑھانے اور تنخوائیں بڑھانے کی طرف ہے، جبکہ جن کیلئے یہ سکول قائم کئے گئے ہیں، جن کی وجہ سے یہ تمام وسائل مختص کئے گئے ہیں، وہ کتناسیکھ رہے ہیں، ان کو کتنافائدہ ہو رہا ہے، کوئی پتہ نہیں۔ سندھ کے تعلیمی بجٹ میں 2010کے مقابلے میں 8گنا اضافہ ہو چکا ہے لیکن پانچویں اور چھٹی جماعت کے بچوں کے سیکھنے کی صلاحیتوں میں کوئی بہتری نہیں لائی جا سکی، اسی طرح پنجاب میں تنخواہوں کے بجٹ میں 2010سے اب تک تقریباً74فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ بچوں کی سیکھنے کی صلاحیتوں میں صرف 7فیصد تک بہتری آئی۔ اسی طرح بچوں کی سکولوں میں داخلے کی شرح میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان کے اوسط درجے کے نجی سکول، جن کے اساتذہ کو سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی نسبت بہت کم تنخواہ دی جاتی ہے، ایسے بچے تیار کر رہے ہیں جن کی سیکھنے کی صلاحیتیں سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی نسبت دو درجے اوپر ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ جوابدہی کا نظام ہے جو نجی اداروں میں تیز تر جبکہ سرکاری اداروں میں کم تر سطح پرہے۔ گو کہ ہمارے تعلیمی نظام کو وسائل کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے لیکن محکمہ تعلیم کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کئے بغیر اس کے بجٹ میں اضافہ کرنا بے سود ہو گا۔ تعلیمی نظام میں اصلاحات لائے بغیر وسائل میں اضافہ کرنا ، وسائل کو ضائع کرنے کے مترادف ہو گا۔ ایک ایسا نظام جس میں اساتذہ کی کارکردگی کو بچوں کے سیکھنے کی صلاحیتوں کے ساتھ مشروط کیا جائے، اساتذہ کی خدمات کو صرف اور صرف بچوں کی تعلیم و تربیت تک محدود کیا جائے اور ہر سطح پر جوابدہی کے عمل کو تیز تر کیا جائے۔
{jcomments on}0333-5945186

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں