اڈیالہ جیل ویسے تو ہمیشہ ہی خبروں کی زینت رہتی ہے مگر آج کل پھر سے اسکا چرچا ہے کیونکہ یہاں ایک بار پھر ایک سابق وزیر اعظم عمران خان یہاں قید کاٹ رہے ہیں اگر ہم بات کریں کہ اڈیالہ جیل کہاں واقع اور اسکو کو کیا تاریخی اہمیت حاصل تو اڈیالہ جیل اصل میں سینٹرل جیل راولپنڈی ہے مگر اسے اڈیالہ جیل اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں ضلع راولپنڈی کا اڈیالہ نام سے ایک گاوں ہے جو اس سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس کی مناسبت سے اس کا نام اڈیالہ جیل پڑ گیا ہے یہ جیل راولپنڈی اڈیالہ روڈ پر ضلعی عدالتوں یعنی کچہری سے تقریباً 12 سے 13 کلومیٹر کے فاصلے پر دہگل گاؤں کے قریب واقع ہے اس سے آدھے کلو میٹر کے فاصلے پر ایک تاریخی گاؤں گھورکھپور موجود ہے اسے 1970 کی دہائی کے آخر میں اور 1980 کی دہائی کے شروع میں پاکستان کے سابق صدر و جنرل محمد ضیاء الحق کے دور حکومت میں تعمیر کیا گیا تھا جبکہ اس سے قبل راولپنڈی کی ضلعی جیل ضلعی عدالتوں کے سامنے اس مقام پر واقع تھی جہاں آج کل جناح پارک واقع ہے اور یہ وہی جیل تھی جس میں ملک کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قید میں رکھا گیا تھا اور بعد ازاں اسی جیل سے متصل پھانسی گھاٹ میں انھیں پھانسی بھی دی گئی تھی 1986 میں اس جیل کو اڈیالہ منتقل کر دیا گیا اور یہاں جناح پارک بنا دیا گیا اڈیالہ جیل کا نام ماضی ہو یا حال ہمیشہ پاکستانی سیاست میں گونجتا رہتا ہے اس جیل کو یہ اعزاز بھی حاصل کہ یہاں ملک کے چار سابق وزرائے اعظم سمیت متعدد اہم سیاست دان اور بیورو کریٹ قید رہ چکے ہیں اور آج کل بھی ایک سابق وزیر اعظم عمران خان یہاں قید ہیں اس جیل میں مسلم لیگ ن کے صدر و سابق وزیرِاعظم نواز شریف دو مرتبہ اس جیل میں قید کاٹ چکے ہیں پہلی مرتبہ 1999 میں طیارہ سازش کیس میں سزا سنائی گئی تو وہ کچھ عرصے کے لیے یہاں قید رہے جبکہ دوسری مرتبہ پانامہ کیس میں جب انکو سزا سنائی گئی تو وہ یہاں قید ہوئے اس موقع پر ان کے ساتھ مسلم لیگ ن کی موجودہ سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف بھی اڈیالہ جیل میں قید رہی ہیں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی ڈیڑھ برس سے زیادہ عرصہ اڈیالہ جیل میں گزارا پاکستان کے تیسرے سابق وزیراعظم شہباز شریف بھی مشرف دور میں اڈیالہ جیل میں قید رہ چکے ہیں جبکہ چھوتھے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی یہاں قید رہ چکے ہیں جبکہ اس ملک کے سابق صدر آصف علی زرداری بھی اڈیالہ جیل میں قید کی زندگی گزار چکے ہیں آج کل سابق وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی بھی اسی جیل میں قید ہیں اس کے علاوہ بھی یہاں بہت سے سینئر سیاسی رہنماء قید کاٹ چکے ہیں
سیاست دانوں کے علاوہ سابق چیئرمین نیب سیف الرحمان اور مشہور ماڈل ایان علی بھی منی لانڈرنگ کیس میں یہاں قید کی سزا کاٹ چکی ہیں ویسے تو پنجاب میں 42 کے قریب جیلیں موجود ہیں مگر صرف دو جیلیں ایسی ہیں جہاں پر قیدیوں کے لیے اے کلاس کی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں ان میں ایک اڈیالہ جیل بھی ہے جبکہ دوسری بہاولپور شامل ہے اگر ہم بات کریں جیل میں قیدیوں کو کونسی سہولیات دی جاتی ہیں تو جیل میں قیدیوں کو اے، بی اور سی تین مختلف کیٹگریز میں رکھا جاتا ہے سب سے پہلے بات کریں اگر ”سی” کیٹگری کی تو اس میں ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو قتل، ڈکیتی، چوری، لڑائی جھگڑے سمیت دیگر مقدمات میں سزا یافتہ ہوں اسی طرح بات کریں ”بی” کی تو اس کیٹگری میں ان کو رکھا جاتا جو قتل اور لڑائی جھگڑے کے مقدمات میں تو ملوث ہوتے مگر کسی اچھے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں یا گریجویشن پاس ہوں تو ایسے قیدیوں کو بی کلاس میں رکھا جاتا جبکہ ہم بات کریں ”اے کلاس” کی تو یہاں بڑے سرکاری افسران کے علاوہ، سابق وزرائے اعظم، سابق وفاقی وزراء وغیرہ کو رکھا جاتا ہے اب بات کریں ان کلاسز کی کہ ان میں کونسی سہولیات قیدی کو میسر ہوتی ہے تو ”اے کلاس” جن قیدیوں کو دی جاتی ہے انھیں رہائش کے لیے دو کمروں پر محیط ایک الگ سے بیرک دیا جاتا ہے جہاں قیدی کے لیے بیڈ، ائیرکنڈیشنر، فریج اور ٹی وی موجود ہوتا اسکے علاوہ اس بیرک میں الگ سے باورچی خانہ بھی شامل ہوتا ہے جہاں قیدی جیل کے کھانے کے علاوہ اپنی مرضی کا کھانا بنا سکتا ہے جبکہ اس کلاس میں رہنے والے قیدی کو دو مشقتی بھی دیے جاتے ہیں جو اسکی خدمت کرتے ہیں جو وہ اسکے ساتھ ہی رہتے ہیں اگر قیدی چاہے تو وہ شام کو اپنی بیرکوں میں چلے جاتے اور اگلی صبح واپس آجاتے ہیں جبکہ جیل قوانین کے مطابق جن قیدیوں کو ”بی کلاس” فراہم کی جاتی ان کو دو کہ بجائے ایک الگ سے کمرہ اور ایک مشقتی دیا جاتا ہے دیگر تمام سہولیات اے کلاس والی ہی ہوتی ہیں ہمارے زیادہ تر سیاستدانوں کو اے اور بی کلاس ہی فراہم کی جاتی ہیں۔